الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ
وہ لوگ کہ اگر ہم انھیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور اچھے کام کا حکم دیں گے اور برے کام سے روکیں گے، اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضہ میں ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : مسلمانوں کا قتال اور اقتدار کشور کشائی یا ذاتی مفاد کے لیے نہیں ان کے قتال اور اقتدار کا مقصد ” اللہ“ کے دین کی سر بلندی اور مظلوموں کی مدد کرنا ہے اور دنیا میں امن وامان قائم رکھنا ہے۔ برسر اقتدار لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ہر قسم کے ظلم و زیادتی سے بچتے ہوئے اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ کریں۔ جس میں اوّل نماز قائم کرنا اور لوگوں کو پابند نماز بنانا، زکوٰۃ ادا کرنا اور نظام زکوٰۃ نافذ کرنا۔ حکمران خود نیکی کے کام کریں اور لوگوں کو نیکی کا حکم دیں اور خود برائی سے بچیں لوگوں کو برائی سے منع کریں اور یہ عقیدہ رکھیں کہ ہر کام کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔ اس فرمان کے شروع میں یہ الفاظ ہیں کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو اقتدار عطا فرمائے انھیں یہ کام کرنے چاہییں۔ آخر میں فرمایا کہ انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہر کام کا انجام اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ گویا کہ حکمرانوں کو ہر حال میں فکر آخرت کے ساتھ یہ تصور بھی رکھنا چاہیے، کہ حکمرانی کے نشہ میں آکر مغرور اور متکبر نہیں بننا کیونکہ حقیقی اقتدار اور اختیار اللہ ہی کے پاس ہے۔ تمام امور کا انجام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں کہہ کر مسلمانوں کو یہ عقیدہ دیا گیا ہے کہ اقتدار اور اختیار اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض ہوتا ہے۔ جو ہمیشہ کسی ایک کے پاس نہیں رہتا۔” اللہ“ جسے چاہے اقتدار سے نوازتا ہے اور جس کو چاہے محروم کردیتا ہے۔ البتہ اس کا اصول یہ ہے کہ وہ لوگوں کے افکار اور اعمال کے مطابق ان پر حکمران مقرر کرتا ہے جیسے لوگ ہونگے ویسے حکمران ہوں گے۔ نیک حکمران اس سے ڈرنے والے ہوتے ہیں اور وہ اپنے فرائض میں بالخصوص نظام صلوٰۃ اور زکوٰۃ کا اجتماعی طور پر نفاذ کرتے ہیں اور لوگوں کو ہر قسم کی برائی اور بے حیائی سے روکنے کے ساتھ ساتھ نیکی اور بھلائی کا حکم دیتے ہیں، اگر حکمران ظالم اور برے ہیں تو انہیں یہ فکر کرنی چاہیے کہ بیشک دنیا میں انہیں روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں مگر ایک دن ایسا ضرور آئے گا جس دن انہیں اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا۔ اگر حکمران نیک ہیں تو انہیں اس سوچ کے ساتھ بلا خوف وخطر اپنی جدوجہد میں لگے رہنا چاہیے کہ ہمارا کام تو اپنی اور لوگوں کی اصلاح کرنا ہے۔ نتیجہ ہمارے رب کے ہاتھ میں ہے۔ یاد رہے کہ انفرادی اصلاح انفرادی کو شش سے ہوا کرتی ہے اور اجتماعی اصلاح اور ترقی صرف اور صرف اجتماعی کوشش سے ظہور پذیر ہوتی ہے۔ جس کے لیے اجتماعی جدوجہد اور نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو صالح حکمران اور ان کے اچھے ساتھیوں کے بغیر ممکن نہیں اس لیے حضرت عمر (رض) نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ میرے دل کی آرزو ہے کہ میرے پاس ابو عبیدہ جیسے عمّال ہونے چاہیں۔ (از مؤلف مولانا عبدالروف جھنڈا نگری) نظام صلوٰۃ : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ صَلَاۃُ الْجَمَاعَۃِ تَفْضُلُ صَلَاۃَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَّعِشْرِیْنَ دَرَجَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس گنا زیادہ افضل ہے۔“ (وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ ھَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَیُحْطَبَ ثُمَّ آمُرَ بالصَّلَاۃِ فَیُؤَذَّنَ لَھَا ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَیَؤُمَّ النَّاسَ ثُمَّ أُخَالِفَ إِلٰی رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَیْھِمْ بُیُوْتَھُمْ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ یَعْلَمُ أَحَدُھُمْ أَنَّہٗ یَجِدُعَرْقًا سَمِیْنًا أَوْ مِرْمَاتَیْنِ حَسَنَتَیْنِ لَشَھِدَ الْعِشَآءَ) [ رواہ البخاری : کتاب الاذان، باب وجوب صلاۃ الجماعۃ] ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں جب اکٹھی ہوجائیں۔ میں حکم دوں کہ نماز کے لیے اذان دی جائے پھر کسی آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کی امامت کروائے اور میں جماعت سے پیچھے رہنے والوں کے گھروں کو جلا کر راکھ کردوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر ان میں سے کوئی جانتا کہ اسے نماز کے بدلے موٹی ہڈی یا دو بہترین پائے ملیں گے تو ضرورعشاء کی نماز میں وہ حاضر ہوتا۔“ نظام زکوٰۃ : (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ لَمَّا تُوُفِّیَ النَّبِیُّ (ﷺ) وَاسْتُخْلِفَ اَبُوْ بَکْرٍ بَعْدَہُ وَکَفَرَ مَنْ کَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ قَالَ عُمَرُ ابْنُ الْخَطَّابِ لِاَبِیْ بَکْرٍ (رض) کَیْفَ تُقَاتِلُ النّٰاسَ وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَاِ الٰہَ اِلَّا اللّٰہُ فَمَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ عَصَمَ مِنِّیْ مَالَہُ وَنَفْسَہُ اِلَّا بِحَقِّہٖ وَحِسَابُہُ عَلَی اللّٰہِ فَقَالَ اَبُوْ بَکْرٍ وَاللّٰہِ لَاُ قَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ فَاِنَّ الزَّکٰوۃَ حَقُّ الْمَالِ وَاللّٰہِ لَوْمَنَعُوْنِیْ عَنَاقًاکَانُوْا یُؤَدُّوْنَھَا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) لَقَاتَلْتُھُمْ عَلٰی مَنْعِھَا قَالَ عُمَرُ فَوَاللّٰہِ مَا ھُوَ اِلَّا رَاَیْتُ اَنَّ اللّٰہَ شَرَحَ صَدْرَاَبِیْ بَکْرٍ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ اَنَّہُ الْحَقُّ۔ ) [ رواہ البخاری : باب الأَمْرِ بِقِتَال النَّاسِ حَتَّی یَقُولُوا لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ مُحَمَّدٌ رَسُول اللَّہِ ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب نبی مکرم (ﷺ) وفات پاگئے اور آپ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق (رض) کو خلیفہ منتخب کیا گیا اور عرب کے کچھ لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ابو بکر صدیق (رض) سے عرض کیا کہ آپ کیسے ان لوگوں سے جنگ کریں گے جبکہ نبی معظم (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے میں لوگوں سے اسوقت تک جنگ کروں جب تک وہ یہ گواہی نہ دے دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں جس نے اس کا اقرار کرلیا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں تو اس نے مجھ سے اپنی جان اور مال کو بچالیا البتہ اسلام کے حق کی وجہ سے اس کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔ حضرت ابو بکر (رض) نے فرمایا اللہ کی قسم! میں ان لوگوں سے ضرور لڑائی کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرتے ہیں۔ کیونکہ زکوٰۃ مال پر فرض ہے اللہ کی قسم اگر لوگ مجھ سے بھیڑ کے بچے کو روک لیں گے جس کو وہ رسول اللہ کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے تو میں اس کے روکنے پر ان سے قتال کروں گا۔ حضرت عمر (رض) نے اعتراف کیا کہ اللہ کی قسم! مجھے اطمینان ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابو بکر صدیق (رض) کے سینے کو جہاد کے لیے کھول دیا ہے۔ میں نے سمجھا کہ لڑنا حق ہے۔“ قتال فی سبیل اللہ : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا‘ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جو امیر کی اطاعت کرے گا اس نے گویا میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ بلا شبہ امام ڈھال کی طرح ہے۔ اس کے حکم سے جہاد کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے تحفظ حاصل کیا جاتا ہے۔ اگر وہ اللہ سے ڈرنے کا حکم دے اور عدل کرے تو اس کے لیے یہ باعث اجر ہوگا۔ اور اگر وہ اس کے برخلاف چلے تو اس کی سزا اس پر ہوگی۔[ رواہ البخاری : باب یُقَاتَلُ مِنْ وَرَاءِ الإِمَامِ وَیُتَّقَی بِہِ ] برائی کے خلاف کوشش کرنا فرض ہے : (عَنْ أَبِیْ سَعِیدٍ الْخُدْرِیُّ (رض) سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) یَقُولُ مَنْ رَأَی مُنْکَرًا فَغَیَّرَہُ بِیَدِہِ فَقَدْ بَرِءَ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یُغَیِّرَہُ بِیَدِہِ فَغَیَّرَہُ بِلِسَانِہِ فَقَدْ بَرِءَ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یُغَیِّرَہُ بِلِسَانِہِ فَغَیَّرَہُ بِقَلْبِہِ فَقَدْ بَرِءَ وَذَلِکَ أَضْعَفُ الإِیمَانِ) [ رواہ النسائی : باب تَفَاضُلِ أَہْلِ الإِیمَانِ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا آپ نے فرمایا جس شخص نے برائی کو دیکھا تو اس نے اسے اپنے ہاتھ سے ختم کیا تو وہ بری ہوگیا اور اگر اس میں برائی کو ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں تو اسے اپنی زبان سے تو روکے تو وہ بھی بری ہوگیا اگر اس نے زبان سے روکنے کی ہمت نہیں تو اسے دل سے ناپسند جانے تو وہ بھی بری ہوگیا اور یہ سب سے کمتر ایمان ہے۔“ حدود اللہ کے نفاذ کی برکات : (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ إِقَامَۃُ حَدٍّ مِّنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنْ مَطَرِ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً فِیْ بِلَاد اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ) [ رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب إقامۃ الحدود] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ کی حدود میں سے کسی ایک حد کو نافذ کرنا چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔“ آپ (ﷺ) نے چالیس دن مسلسل بارش کی بات نہیں بلکہ اس بارش سے مراد حسب ضرورت اور بروقت چالیس مرتبہ بارش کا ہونا مراد ہے جس ملک میں اس طرح بارشوں کا سلسلہ جاری رہے تو وہاں کے لوگوں کی صحت، پھلوں اور اناج کی کثرت اور برکات کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔ اور موجودہ دور میں فی گھنٹہ بجلی کی بچت کا فائدہ اس سے الگ ہوگا جو کروڑوں روپے سے متجاوز ہے۔ مسائل: 1۔ حکمرانوں کو ملک میں نماز، زکوٰۃ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام قائم کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: صاحب اقتدار لوگوں کے فرائض : 1۔ وہ میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بد کردار ہیں۔ (النور :55) 2۔ خلافت کی ذمہ داریاں۔ (ص : 26‘ الحج :41) 3۔ حکمرانوں کو زمین میں نماز، زکوٰۃ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام قائم کرنا چاہیے۔ ( الحج :41) 4۔ فیصلے انصاف کے ساتھ انصاف کرنا۔ (المائدہ :42) 5۔ حضرت داؤد کو حکم کہ اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنا۔ (ص :26)