سورة الحج - آیت 33

لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تمھارے لیے ان میں ایک مقرر وقت تک کئی فائدے ہیں، پھر ان کے حلال ہونے کی جگہ اس قدیم گھر کی طرف ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 33 سے 34) ربط کلام : دل کے تقویٰ کا تقاضا ہے کہ شعاء اللہ کا احترام کیا جائے۔ شعائر اللہ کا وہی احترام کرے گا جو اپنے ” اللہ“ کے سامنے قلباً اور عملاً عاجزی کرنے والا ہوگا۔ اللہ کے حضور انسان جب کسی جانور کی قربانی پیش کرتا ہے تو اس میں نیت رضائے الٰہی کے حصول کے سوا کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ دین اسلام کی خوبیوں میں ایک خوبی یہ ہے کہ اس کے ہر کام میں آخرت کے اجر کے ساتھ دنیا کا فائدہ پایا جاتا ہے۔ پہلی امتوں میں یہ اصول تھا کہ قربانی پیش کرنے والا اس کا گوشت نہیں کھا سکتا تھا۔ لیکن ہم پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ اس نے نہ صرف ہمیں قربانی کا گوشت کھانے کی اجازت عنایت فرمائی ہے بلکہ ہم قربانی کے جانور کی اون چمڑی اور ہڈیوں سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں اسی طرح دیگر چوپاؤں میں ہمارے لیے فوائد رکھے گئے ہیں۔ جہاں تک قربانی کے واجب ہونے کا تعلق ہے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کرنا لازم قرار دیا اور انھیں ہدایت کی تھی کہ قربانی صرف اللہ کے نام پر ہونی چاہیے اسے ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام لینا فرض ہے۔ کیونکہ اسی نے تمہیں چوپائے عطا فرمائے ہیں لہٰذا وہ اکیلا ہی عبادت کے لائق ہے۔ یہاں عبادت سے پہلی مراد نذونیاز ہے جو صرف اور صرف ’ ’ اللہ“ ہی کے لیے ہونی چاہیے۔ لہٰذا ہر حال میں اپنے رب کے تابع فرماں رہو۔ جو لوگ اپنے رب کے حضور دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ مطیع ہوں گے انھیں خوشخبری کا پیغام دیا جاتا ہے۔ قربانی کی تاریخ : جب سے حضرت آدم (علیہ السلام) دنیا میں تشریف لائے اسی وقت سے لے کر ” اللہ“ کی راہ میں اس کی رضا کے لیے قربانی کرنا مشروع ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں واقعہ بیان ہوا ہے : ﴿وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَأَ ابْنَیْ اٰدَمَ بالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِ ھِمَاوَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخِرْ قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ لَئِنْ م بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ مَآ أَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِأَقْتُلَکَ اِنِّیْ اَخَاف اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ [ المائدۃ: 27، 28] ” آپ ان کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا واقعہ سنائیں۔ جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قربانی قبول نہیں کی گئی۔ جس کی قربانی قبول نہ ہوئی اس نے دوسرے بھائی کو کہا کہ میں تجھے قتل کردوں گا۔ پہلے نے جواب دیا اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کی قربانی قبول کرتا ہے۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا کیونکہ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔“ قربانی کی فضیلت : (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مَا عَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ مِنْ عَمَلٍ یَوْمَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلٰی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مِنْ اِہْرَاق الدَّمِ وَاِنَّہٗ لَیَاْتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقُرُوْنِھَا وَاَشْعَارِھَا وَاَظْلَافِھَا وَاِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ الْاَرْضَ فَطِیْبُوْبِھَا نَفْسًا) [ رواہ ابن ماجۃ: ابواب الاضاحی، باب ثواب الاضحیۃ] ” ام المؤ منین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ نبی (ﷺ) نے ارشاد فرمایا قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کو خون بہانے سے زیادہ پسند کوئی عمل نہیں۔ قربانی کا جانور اپنے سینگوں‘ کھروں اور بالوں سمیت حاضر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے درجات بلند فرما دیتا ہے۔ اس لیے قربانی دل کی خوشی کے ساتھ کیا کرو۔“ قربانی کا اجر : (عَنْ زَیْدِ بْنِ اَرْقَمَ قَالَ قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ () مَاھٰذِہٖ الْاَضَاحِیْ قَالَ سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاھِیْمَ قَالُوْا فَمَالَنَا فِیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ قَالُوْا فَالصُّوْفُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِّنَ الصُّوْفِ حَسَنَۃٌ) [ رواہ ابن ماجۃ: ابواب الاضاحی‘ باب ثواب الاضحیۃ] ” زید بن ارقم کا بیان ہے کہ اصحاب رسول نے آپ سے سوال کیا اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! قربانی کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے۔ صحابہ (رض) نے عرض کی کہ ہمیں اس میں کیا ملے گا؟ ارشاد ہوا قربانی کے بالوں کے برابر ثواب ملے گا۔ رفقائے رسول (رض) پھر عرض کرتے ہیں اللہ کے نبی بھیڑ کی اون کے برابر بھی؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا! بھیڑ کی اون کے ایک ایک بال کے برابر نیکیاں ملیں گی۔“ (عَنْ جُنْدُبِ ابْنِ عَبْدِاللّٰہِ الْبَجَلِی (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلٰوۃِ فَلْیَذْبَحْ مَکَانَھَا اُخْرٰی وَمَنْ لَّمْ یَذْبَحْ حَتّٰی صَلَّیْنَا فَلْیَذْبَحْ عَلَی اسْمِ اللّٰہِ) [ رواہ البخاری : باب قول النبی () فلیذبح علی اسم اللہ] ” حضرت جندب بن عبداللہ البجلی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا جس نے نماز عید سے پہلے جانور ذبح کیا اسے اور قربانی کرنا پڑے گی جو نمازِعید کے بعد قربانی کرے اسے اللہ کے نام پر قربانی ذبح کرنی چاہیے۔“ (حج کرنے والا قربانی کے اونٹ پر سواری کرسکتا ہے۔ البتہ جب قربانی کا وقت آئے تو اسے قربانی کرنا ہوگا۔) مسائل: 1۔ قربانی کرنے میں دینی اور دنیاوی فوائد ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے ہر امت کے لے قربانی مقرر کی ہے۔ 3۔ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا (بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ) لازم ہے۔ 4۔ اللہ ایک ہی معبود حقیقی ہے اسی کا مطیع ہونا چاہیے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کرنے والوں کے لیے جنت کی خوشخبری ہے۔ تفسیر بالقرآن: قربانی کے مسائل: 1۔ قربانی (ذوالحجہ) کے چند مخصوص دنوں میں کرنی چاہیے۔ (الحج :28) 2۔ قربانی اللہ کے نام پر ذبح کرنی چاہیے۔ (الحج :34) 3۔ اونٹ کو گھٹنا باندھ کر کھڑے کھڑے قربانی کرنا چاہیے۔ (الحج :36) 4۔ قربانی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے۔ (الصّٰفٰت :108) 5۔ قربانی کا گوشت خود بھی کھانا چاہیے اور فقیروں اور قناعت کرنے والوں کو بھی دینا چاہیے۔ ( الحج :36) 6۔ گوشت اور خون کی بنیاد پر قربانی قبول نہیں ہوتی قربانی تقویٰ کی بنیاد پر قبول ہوتی ہے۔ (الحج :37)