حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ
اس حال میں کہ اللہ کے لیے ایک طرف ہونے والے ہو، اس کے ساتھ کسی کو شریک کرنے والے نہیں اور جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا، پھر اسے پرندے اچک لیتے ہیں، یا اسے ہوا کسی دور جگہ میں گرا دیتی ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حرمات کا تقاضا تبھی پورا ہوسکتا ہے کہ انسان تمام معاملات میں اپنے رب کے لیے یکسو ہوجائے۔ حَنِیْفَ کی جمع ” حُنَفَاءَ“ ہے جس کا معنٰی ہے کسی کام کے لیے پوری طرح یکسو ہوجانا۔ یہاں ﴿حنفاء للّٰہ ﴾کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ اے لوگو! تمھیں نہ صرف ہر قسم کی ناپاکی، بتوں اور جھوٹ سے بچنا ہے بلکہ پوری طرح اللہ کے بن کر رہنا ہوگا۔ تمھارے عقیدہ اور عمل میں شرک کی ذرہ برابر آمیزش نہیں ہونا چاہیے۔ جس نے اعتقاداً یا عملاً اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا گویا کہ وہ آسمان سے نیچے گرا۔ اس کے زمین پر آتے ہی پرندوں نے نوچ لیا۔ یا اسے تیز ہوا نے ایسے مقام پر جا پھینکا جس سے وہ ریزہ ریزہ ہوگیا۔ ﴿سَحِیْقٍ﴾ پہاڑ کے درمیان ایسی کھڈ کو کہتے ہیں جس میں گرنے والا پتھروں پر لڑھکتا ہوا اس طرح نیچے گرے کہ اس کے جسم کے چیتھٹرے اڑ جائیں۔ شرک کرنے والے کی حقیقتاً یہی حالت ہوتی ہے۔ عقیدہ توحید انسان کو فکری اور عملی طور پر بلندیوں سے سرفراز کرتا ہے۔ شرک انسان کو فکری اور عملی طور پر ذلت اور زوال سے دو چار کرتا ہے۔ مواحد انسان ہر حال میں اپنی خودی کو قائم رکھتا ہے۔ اگر وہ کسی کے ساتھ تعلق جوڑتا ہے تو اس کے پیچھے مفاد کی بجائے اللہ کا حکم اور اس کی رضا مقصود ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں مشرک فکری اور عملی طور پر اس قدر گھٹیا بن جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کو چھوڑ کر بتوں، پتھروں اور مزاروں کے سامنے ماتھا رگڑتا ہے۔ اس کے عمل اور تعلق کے پیچھے جلد بازی اور مفاد پرستی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ حتی کہ وہ ” اللہ“ کی عبادت بھی صرف دنیوی فائدے کے لیے کرتا ہے۔ جس وجہ سے مشرک اپنے رب کا وفادار نہیں ہوتا جو اپنے رب کا وفادار نہیں وہ دوسروں کا کس طرح وفادار ہوسکتا ہے۔ جس طرح آسمان سے گرنے والے کا وجود ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے اسی طرح مشرک فکر و عمل کے اعتبار سے ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔ وہ اعتقادی طور پر منتشر اور خوداری کے حوالے سے انتہائی تہی دامن ہوتا ہے۔ اسی بات کا نتیجہ ہے کہ اچھا بھلا پڑھا لکھا انسان کبھی فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے آدمی سے قسمت دریافت کرتا ہے، اور کبھی بت کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا ہے۔ ایک قبر کے سامنے سجدہ کر رہا ہے اور دوسرا قبر کے پاس بیٹھے ہوئے مجاور کے سامنے فریاد کر رہا ہوتا ہے اس طرح در در کی ٹھوکریں کھانے کو ثواب سمجھتا ہے۔ ان کے مقابلے میں مومن غریب ہو یا امیر، پڑھا ہوا ہو یا اَن پڑھ وہ اپنے رب کو چھوڑ کر کہیں جانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ یَقُوْلُ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی لأَہْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ قَدْ أَرَدْتُ مِنْکَ أَہْوَنَ مِنْ ہَذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ اٰدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ أَحْسَبُہُ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ) [ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب طَلَبِ الْکَافِرِ الْفِدَاءَ بِمِلْءِ الأَرْضِ ذَہَبًا] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں، آپ (ﷺ) فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب پانے سے کہے گا۔ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اگر تیرے پاس ہو۔ کیا تو اسے فدیہ کے طور پردینے کے لیے تیار ہے وہ کہے گا جی ہاں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تجھ سے اس سے بھی ہلکی بات کا مطالبہ کیا تھا جب تو آدم کی پشت میں تھا وہ یہ کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا۔ راوی کا خیال ہے کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا میں تجھے جہنم میں داخل نہ کرتا لیکن تو شرک سے باز نہ آیا۔“ مسائل: 1۔ مسلمان کا فکر و عمل صرف اللہ کے لیے ہوتا ہے۔ 2۔ جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا وہ بلندیوں سے پستیوں میں گرجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: شرک کی ذلّت اور اس کے نقصانات : 1۔ شرک سے تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ (الزمر :65) 2۔ اللہ مشرک کو معاف نہیں کرے گا اس کے علاوہ جسے چاہے گا معاف کر دے گا۔ (النساء :48) 3۔ شرک کرنے والا راہ راست سے بھٹک جاتا ہے۔ (النساء :116) 4۔ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا کہ وہ آسمان سے گرپڑا۔ (الحج :31) 5۔ شرک کرنے والے پر جنت حرام ہے۔ (المائدۃ :72) 6۔ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری الذّمہ ہے۔ (التوبۃ:3) 7۔ مشرکین کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (ابراہیم :30) 8۔ اللہ تعالیٰ نے مشرک اور زانی کو ایک جیسا قرار دیا ہے۔ ( النور :3)