سورة الحج - آیت 30

ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ ۗ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ۖ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یہ اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کے لیے اس کے رب کے ہاں بہتر ہے اور تمھارے لیے مویشی حلال کردیے گئے ہیں سوائے ان کے جو تمھیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں۔ پس بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات سے بچو۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : قربانی اور بیت اللہ کے طواف کے بعد اللہ کی مقرر کردہ حرمتوں کا احترام کرنے کا اشارہ۔ حج کی ادائیگی کے بعد ہر شخص کو اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حرمات کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے۔ جنھیں سورۃ البقرۃ میں شعائر اللہ کہا گیا ہے۔ ان حرمتوں میں بیت اللہ کا احترام، صفا اور مروہ، مزدلفہ میں مشعر حرام، قربانی کا جانور اور اس کا گوشت، مسلمان کا احترام و اکرام یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حرمتیں ہیں، ان کا احترام کرنے کا حکم ہے۔ اس لیے فرمایا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حرمتوں کا احترام کیا۔ حرمتوں کا خیال رکھنے والے کے لیے اس کے رب کے ہاں خیر ہے۔ اس سے پہلے قربانی کا ذکر ہو رہا تھا اس لیے یہ وضاحت کردی کہ تمھارے لیے وہی جانور حلال ہیں جن کا ذکر تمھارے سامنے کردیا گیا ہے۔ لہٰذا بتوں کی نجاست سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔ بتوں کو ناپاک قرار دے کر ان کے متعلقات تمام امور کو ناجائز قرار دیا گیا ہے نہ ان کے نام پر کوئی چیز ذبح کرنی چاہیے اور نہ ہی بتوں کا احترام اور ان کے وسیلے سے مانگنا چاہیے۔ اسی طرح قول زُور سے بھی بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ الزوّر سے مراد جھوٹ ہے بے شک اسے کتنا ہی بنا سنوار کر بولا جائے۔ غیر اللہ کے نام پر نذر و نیاز دینے والوں کو جب اس کام سے روکا جاتا ہے تو وہ بڑے خوبصورت الفاظ میں اپنے موقف کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ” قَوْلَ الزُّوْرِ“ کے الفاظ لا کر یہ باور کروایا گیا ہے کہ یہ جھوٹ ہے اور جھوٹ کو جس قدر اچھے الفاظ کا جامہ پہنایا جائے وہ جھوٹ ہی رہتا ہے اس سے ہر صورت بچنا چاہیے۔ رسول کریم (ﷺ) نے جھوٹی گواہی کو بھی ” قَوْلَ الزُّوْرِ“ قرار دیا ہے۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () اَلْکَبَائِرُ الْاِشْرَاک باللّٰہِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَالْیَمِیْنُ الْغَمُوْسُ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ وَفِی رِوَایَۃِ اَنَسٍ وَّشَھَادَۃُ الزُّوْرِ بَدَلَ الْیَمِیْنِ الْغَمُوْسِ) [ رواہ البخاری : باب الْیَمِینِ الْغَمُوسِ ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) ذکر کرتے ہیں رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا یہ بڑے گناہ ہیں۔ (1) اللہ کے ساتھ شرک کرنا (2) والدین کی نافرمانی کرنا‘ (3) ناحق کسی کو قتل کرنا (4) اور جھوٹی قسم اٹھانا (بخاری) حضرت انس (رض) کی روایت میں جھوٹی قسم کی جگہ جھوٹی شہادت دینے کے الفاظ ہیں۔“ مسلمانوں کا مال، جان اور عزت محترم ہے : (عَنْ أَبِیْ بَکْرَۃَ قَالَ خَطَبَنَا النَّبِیُّ () یَوْمَ النَّحْرِ فَإِنَّ دِمَآءَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَھْرِکُمْ ھٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَا إِلٰی یَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ أَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ قَالُوْا نَعَمْ۔۔) [ رواہ البخاری : کتاب الحج، باب الخطبۃ أیام منی] ” حضرت ابو بکرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (ﷺ) نے حج کا خطبہ دیتے ہوئے فرمایا یقیناً تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیساکہ تمہارے لیے آج کا دن، مہینہ اور یہ شہر قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کیوں نہیں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حرمتوں کا احترام کرنا لازم ہے۔ 2۔ وہی جانور حلال ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے۔ 3۔ بتوں ور ان کے متعلقات سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ 4۔ جھوٹ اور ملمع سازی سے بچنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حرمات : 1۔ اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو حرمت والا گھر قرار دیا ہے۔ (المائدۃ:97) 2۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرمت والا بنایا ہے۔ (النمل :91) 3۔ اللہ کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ (التوبۃ:36) 4۔ اللہ تعالیٰ کے شعائر کا احترام کرنے کو تقویٰ قرار دیا ہے۔ ( الحج :32) 5۔ حرمت والی اشیاء کی حرمت کی پاسداری کرنی میں خیر ہے۔ ( الحج :31) 6۔ اے ایمان والو! حرمت والے مہینوں، حرم کو بھیجی ہوئی قربانیاں اور جن کے گلے میں علامتیں آویزاں ہیں اور ان کا مال اور آبرو جو عزت والے گھر کا قصد کرکے آئیں انھیں حلال نہ ٹھہراؤ۔ (المائدۃ:2)