لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ
تاکہ وہ اپنے بہت سے فائدوں میں حاضر ہوں اور چند معلوم دنوں میں ان پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اس نے انھیں دیے ہیں، سو ان میں سے کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو کھلاؤ۔
فہم القرآن: (آیت 28 سے 29) ربط کلام : ایّام تشریق میں کرنے کے کام۔ حج مسلمانوں کی اجتماعی تربیت گاہ اور عالم اسلام کے مسلمانوں کے درمیان ہر قسم کے رابطہ کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی منشاء یہ ہے کہ مسلمان حج سے روحانی فائدے اٹھانے کے ساتھ، ساتھ ایک دوسرے سے معاشی فوائد بھی حاصل کریں۔ اس لیے ایام تشریق یوم عرفہ کے بعد منٰی میں گزارنے والے دو یا تین ایام کو ایام تشریق کہا جاتا ہے جن میں تجارت کرنا جائز قرار دیا۔ اسلام سے پہلے عرب میں عمومی طور پر حج کرنے والے دو قسم کے لوگ تھے۔ ایک گروہ وہ تھا جنھوں نے حج کو تجارتی منڈی بنانے کے ساتھ خاندانی تفاخر کا اسٹیج بنا لیا تھا۔ بالخصوص ایّام تشریق کے دوران کھیل تماشا، لین دین کے دھندے، داستان گوئی اور شعر و شاعری کے ذریعے خاندانی تفاخر کے اظہار کے سوا کچھ نہیں کرتے تھے۔ دوسرا گروہ وہ تھا جو حج کا زاد سفر لینا گناہ اور اپنے گھر کے کپڑے پہننا دنیا داری سمجھتا تھا۔ اسی وجہ سے وہ ذاتی لباس اتار کر مکہ والوں سے مانگ تانگ کر کپڑے پہنتے، جسے کپڑے نہ مل پاتے وہ برہنہ بدن حج ادا کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے برہنہ بدن حج کرنے والوں کو حکم دیا کہ وہ اچھا لباس پہن کر مسجد حرام میں آیا کریں۔ (الاعراف :31) حج ادا کرنے کے بعد کاروبار کی کھلی اجازت عنایت فرمائی تاکہ مسلمان حج کے موقعہ پر روحانی فوائد کے ساتھ مادی طور پر ایک دوسرے سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ لیکن شرط یہ ہے اول و آخر نیت حج کی ہو نہ کہ تجارت کی۔ ایام تشریق میں حج تمتع اور حج افراد میں قربانی کرنا لازم ہے اس لیے قربانی کے مسائل: ذکر فرمائے۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ قربانی خالص اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔ قربانی ذبح کرتے ہوئے۔ ” بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرْ‘ پڑھنا لازم ہے۔ اسلام سے پہلے قربانی کا گوشت کھانا لوگ جائز نہیں سمجھتے تھے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حکم دیا کہ قربانی کے گوشت سے خود بھی کھاؤ فاقہ کش فقیر کو بھی دو۔ ان الفاظ سے استدلال کرتے ہوئے بعض صحابہ (رض) کا موقف ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنے چاہییں۔ خود کھانا، عزیز و اقرباء کو کھلانا اور غرباء میں تقسیم کرنا۔ عام حالات میں اس اصول کو اختیار کرنا زیادہ بہتر ہے لیکن اگر کسی معاشرے میں غرباء کی تعداد زیادہ ہو تو اس تقسیم کا خیال کرنا لازم نہیں۔ حج کے مناسک ادا کرنے کے بعد حجاج کرام میل کچیل دور کریں، اپنی نذریں پوری کریں اور بیت اللہ کا طواف کریں۔ یہاں بیت اللہ کو بیت العتیق کہا گیا ہے جس کا معنی ہے ” قدیم ترین گھر۔“ اس سے یہودیوں کے اس دعویٰ کی نفی کی گئی جو مسجد اقصیٰ کو بیت اللہ سے پہلے کی تعمیر قرار دیتے ہیں۔ ” اَلْعَتِیْقَ“ کا دوسرا معنی آزاد ہے بیت العتیق کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا گھر جو کسی کی ذاتی ملکیت نہیں۔ بیت العتیق کا تیسرا مفہوم یہ ہے کہ اس پر کسی ظالم اور جابر حکمران کا قبضہ نہیں ہوسکتا ہے۔ (عَنْ عَبْدَ اللّٰہِ بْنِ الزُّبِیْرِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِنَّمَا سُمِیَّ الْبَیْتُ الْعَتِیْقِ لِاَنَّہُ لَمَ یُظْہَرْ عَلَیْہِ جَبَّارٌ) [ رواہ الترمذی : باب ومن سورۃ الحج ] ” حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا بیت العتیق کا نام اس لیے رکھا گیا کیونکہ اس پر کوئی ظالم حکمران غالب نہیں آ سکا۔“ (عَنْ عِمْرَانَ ابْنِ حُصَیْنٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃٍ وَلَا فِیْمَا لَا یَمْلِکُ الْعَبْدُ) [ رواہ مسلم : باب لاَ وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِی مَعْصِیَۃِ اللَّہِ وَلا فیمَا لاَ یَمْلِکُ الْعَبْدُ] ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا جس کام میں نافرمانی پائی جائے اس نذر کو پورا کرنا جائز نہیں اور جو چیز انسان کی ملک نہیں اسکی نذر نہ مانی جائے۔“ حضرت عقبہ بن عامر (رض) رسول کریم (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا نذر کا کفارہ وہی ہے‘ جو قسم کا کفارہ ہے۔“ [ رواہ مسلم : باب فِی کَفَّارَۃِ النَّذْرِ] مسائل: 1۔ حج ادا کرنے کے بعد کاروبار کیا جا سکتا ہے۔ 2۔ نذر پوری کرنا ضروری ہے۔ 3۔ قربانی کا گوشت خود کھانے کے ساتھ عزیز و اقربا اور مسکینوں کو کھلایا جائے۔