إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا ۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ
بے شک اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، انھیں اس میں کچھ سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور موتی بھی اور ان کا لباس اس میں ریشم ہوگا۔
فہم القرآن: (آیت 23 سے 24) ربط کلام : جہنمیوں کی سزاؤں کے مقابلے میں جنتیوں کے انعامات۔ قاری کو اچھے اور برے انجام سے آگاہ کرنے کے لیے قرآن مجید اکثر مقامات پر دونوں قسم کے انجام کا بیک وقت ذکر کرتا ہے تاکہ قرآن مجید پڑھنے والا شخص موقعہ پر صحیح فیصلہ کرسکے۔ کہ اسے کونسا کردار منتخب کرنا چاہیے اس لیے جہنمیوں کی سزاؤں کے مقابلے میں جنتیوں کے انعامات کا تذکرہ ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنے رب پر حقیقی ایمان لائے اور خلوص نیت کے ساتھ صالح اعمال کرتے رہے۔ ان کا رب انھیں ہر صورت جنت میں داخل کرے گا۔ جس کے نیچے نہریں جاری ہیں انھیں سونے اور موتیوں کے کنگن اور زرق بر ق ریشم کا لباس پہننے کے لیے دیا جائے گا۔ یہ انعام اس لیے ہوگا کہ انھیں عقیدہ توحید سمجھنے اور سمجھانے کی توفیق حاصل ہوئی اور وہ سیدھے راستے پر گامزن رہے۔ دنیا کی زندگی میں مومن مردوں کو سونے کے کنگن اور ریشم کا لباس پہننے سے منع کیا گیا تھا۔ لیکن جنت میں یہ پابندی اٹھا دی جائے گی۔ قول طیب سے مراد عقیدہ توحید ہے اور صراط حمید کا معنی ہے ایسا راستہ جو ہر خطرہ سے محفوظ اور اس پرچلنا قابل رشک اور قابل تعریف ہو بعض اہل علم نے ” اَلْحَمِیْدُ“ سے مراد ” اللہ“ کی ذات لی ہے۔ ” اللہ“ ہر اعتبار سے قابل تعریف ہے اسی لیے کائنات کی ہر چیز اس کی حمد و ثنا کرتی ہے۔ کچھ اہل دانش نے اس کا یہ مفہوم لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف جانے والا راستہ۔ (عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) غَدْوَۃٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَوْ رَوْحَۃٌ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَافِیْھَا وَلَوْ اَنَّ امْرَأۃً مِّنْ نِّسَاءِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ اِلَی الْاَرْضِ لَاَضَاءَ تْ مَابَیْنَھُمَا وَلَمَلَاَتْ مَا بَیْنَھُمَا رِیْحًا وَّلَنَصِیْفُھَا عَلٰی رَأسِھَا خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا۔) [ رواہ البخاری : باب الْحُورُ الْعِینُ وَصِفَتُہُنَّ ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا‘ اللہ کی راہ میں نکلنا دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے اگر اہل جنت کی عورتوں سے کوئی زمین کی طرف جھانک لے‘ تو مشرق ومغرب اور جو ان کے درمیان ہے روشن اور معطر ہوجائے نیز اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے قیمتی ہے۔“ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) مَوْضِعُ سَوْطٍ فِی الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فیہَا) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ ] ” حضرت سہل بن سعد الساعدی (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا جنت میں ایک کوڑے کے برابر جگہ ملنا زمین کی ہر چیز سے بہتر ہے۔“ مسائل: 1۔ یقیناً مومنوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔ 2۔ جنت میں مومنوں کو سونے اور موتیوں کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ 3۔ جنت میں جنتیوں کو ریشم کا زرق برق لباس پہنایا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن: جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : 1۔ ہم نے اس میں کھجوروں، انگوروں کے باغ بنائے ہیں اور ان میں چشمے جاری کیے ہیں۔ (یٰس :34) 2۔ یقیناً متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ (الذاریات :15) 3۔ یقیناً متقی نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ (الطور :17) 4۔ جنتیوں کو شراب طہور دی جائے گی۔ (الدھر :21) 5۔ جنت میں سونے اور لولو کے زیور پہنائے جائیں گے۔ (فاطر :33) 6۔ جنت میں تمام پھل دو، دو قسم کے ہوں گے۔ (الرحمٰن :52) 7۔ جنتی سبز قالینوں اور مسندوں پر تکیہ لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (الرحمٰن :76) 8۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : 47۔48) 9۔ جنت میں جنتیوں کو ہر وہ نعمت میسر ہوگی جس کی وہ چاہت کریں گے۔ ( الانبیاء :102)