هَٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ ۖ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ
یہ دو جھگڑنے والے ہیں، جنھوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا، تو وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، ان کے لیے آگ کے کپڑے کاٹے جاچکے، ان کے سروں کے اوپر سے کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔
فہم القرآن: (آیت 19 سے 22) ربط کلام : عزت، ذلّت اور ہر قسم کا اختیار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے مگر پھر بھی لوگ اس کے سوا دوسروں کے سامنے جھکنے اور انہیں ” اللہ“ کی ذات اور صفات میں شریک کرتے اور ان کے حق میں جھگڑتے ہیں، ایسے لوگوں کو آگ کا لباس اور جہنم کا کھولتا ہوا پانی ان کے سروں پر ڈالا جائے گا۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اپنے خالق و مالک کی تابعداری اور اس کی حمد وثنا میں لگا ہوا ہے۔ مگر انسانوں میں کثیر تعداد ایسی ہے جو نہ صرف اپنے رب کے نافرمان اور ناقدر دان ہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں کچھ ان میں ذات کبریا کے منکر ہیں اور کچھ نے اس کی صفات میں دوسروں کو دخیل کر رکھا ہے۔ ظلم کی حد یہ ہے کہ وہ اپنے باطل عقیدہ پر اہل حق سے جھگڑتے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے ساڑھے نو سو سال جھگڑا کیا۔ نمرود نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بحث و تکرار کی۔ فرعون اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کشمکش سب کو معلوم ہے۔ اہل مکہ نے اسی باطل عقیدہ کی حمایت پر رسول کریم (ﷺ) اور آپ کے ساتھیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ دیے اور آپ کے خلاف بدر، احد اور خندق میں معرکہ آرائی کی۔ حق و باطل کی کشمکش اتنی طویل ہے کہ اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ جونہی قیامت برپا ہوگی اللہ تعالیٰ حق اور سچ کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے۔ جو لوگ باطل کی حمایت میں جھگڑتے رہے ان کو آگ کا لباس پہنایا جائے گا۔ ان کے سروں پر بے انتہا کھولتا ہوا پانی ڈالتے ہوئے انھیں اسے پینے کا حکم دیا جائے گا۔ جس سے ان کی آنتڑیاں اور جسم گل سڑ جائیں گے۔ ان کے سروں پر لوہے کے ہتھوڑے برسائے جائیں گے۔ ٹھیک ٹھیک سزا دینے کے لیے ان کے جسم مسلسل بدلے جائیں گے۔ جب یہ لوگ جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو فرشتے انھیں مار مار کر یہ کہتے ہوئے دھکیل دیں گے کہ اب تم نے اس جلا دینے والے عذاب میں ہمیشہ رہنا ہے۔ سر پر جہنم کا کھولتا ہوا پانی ڈالنے کی سزا کا اس لیے الگ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ شرک اور دیگر جرائم کی ابتداء بنیادی طور سوچ کی خرابی کے باعث ہوتی ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ اِنَّ الْحَمِیمَ لَیُصَبُّ عَلَی رُءُ وسِہِمْ فَیَنْفُذُ الْحَمِیمُ حَتَّی یَخْلُصَ إِلَی جَوْفِہِ فَیَسْلِتَ مَا فِی جَوْفِہِ حَتَّی یَمْرُقَ مِنْ قَدَمَیْہِ وَہُوَ الصَّہْرُ ثُمَّ یُعَادُ کَمَا کَانَ ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ شَرَابِ أَہْلِ النَّارِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بے شک گرم پانی جہنمیوں کے سروں میں ڈالا جائیگا۔ پانی ان کے سروں کو چھیدتے ہوئے انکے پیٹوں میں پہنچے گا تو ان کی آنتیں پگھل کرپاؤں کے راستے نکل جائیں گی پھر انہیں اسی طرح لوٹا دیاجائیگا۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَرَأَ ہَذِہِ الآیَۃَ ﴿اتَّقُوا اللَّہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ﴾ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) لَوْ أَنَّ قَطْرَۃً مِنَ الزَّقُّومِ قُطِرَتْ فِی دَار الدُّنْیَا لأَفْسَدَتْ عَلَی أَہْلِ الدُّنْیَا مَعَایِشَہُمْ فَکَیْفَ بِمَنْ یَکُونُ طَعَامَہُ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ شَرَابِ أَہْلِ النَّارِ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے یہ آیت پڑھی ” کہ اللہ سے ڈرو جس طرح اللہ سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت اسلام پر ہی آنی چاہیے“ آپ نے فرمایا اگر زقوم کا ایک قطرہ دنیا کے کسی گھر میں ڈال دیا جائے تو پوری دنیا کے لوگوں کا کھانا پینا خراب ہوجائے انکی کیا حالت ہوگی جن کا یہ کھانا ہوگا۔“ ” حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں۔ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا۔ یقیناً دوزخیوں میں سب سے معمولی عذاب پانے والے کے پاؤں میں آگ کے جوتے ہوں گے۔ جس کی وجہ سے اس کا دماغ ہنڈیا کی طرح کھول رہا ہوگا۔ وہ خیال کرے گا کہ کسی دوسرے شخص کو اس سے زیادہ عذاب نہیں ہو رہا‘ حالانکہ وہ سب سے ہلکے عذاب میں مبتلا ہوگا۔“ [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب أھون أھل النار عذابا] مسائل: 1۔ جہنمیوں کو آگ کا لباس پہنایا جائے گا۔ 2۔ جہنمیوں کو جہنم کا کھولتا ہوا پانی پینے کے لیے دیا جائے گا۔ 3۔ جہنم کا کھولتا پانی جہنمیوں کے سر پر ڈالا جائے گا۔ 4۔ جہنمیوں کے سروں پر لوہے کے بھاری ہتھوڑے برسائے جائیں گے۔ 5۔ جہنمی جب جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو انھیں مار مار کر واپس لوٹا دیا جائے گا۔ 6۔ جہنمیوں کے لیے جلا دینے والا ہمیشہ ہمیش کا عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: جہنمیوں کی جہنم میں مختلف سزائیں : 1۔ اس دن ہم ان کا مال جہنم کی آگ میں گرم کریں گے اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں، کروٹوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ (التوبہ :35) 2۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب آگ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مزید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل :97) 3۔ اس میں وہ کھولتا ہوا پانی پیئیں گے اور اس طرح پیئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پیتا ہے۔ (الواقعہ : 54تا55) 4۔ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کی ہے جو انہیں گھیرے ہوئے ہوگی اور انہیں پانی کی جگہ پگھلا ہو اتانبا دیا جائے گا جو ان کے چہروں کو جلا دے گا۔ (الکھف :29) 5۔ ان کے پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی اور درد ناک عذاب ہوگا۔ (الانعام :70) 6۔ کفار کے لئے اُبلتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہوگا۔ (یونس :4) 7۔ تھور کا درخت گنہگاروں کا کھانا ہوگا۔ (الدخان :43) 8۔ جہنمی گرم ہوا کی لپیٹ میں اور کھولتے ہوئے پانی میں ہوں گے۔ (الواقعۃ:42) 9۔ ان کے لیے کھانے کی کوئی چیز نہیں ہوگی مگر ضریع ہے۔ جو ناموٹا کرے گا اور نہ بھوک میں کچھ کام آئے گا۔ (الغاشیۃ: 6۔7) 10۔ کھولتے ہوئے چشمے سے انھیں پانی پلایا جائے گا۔ (الغاشیۃ :5) 11۔ جہنمیوں کو پیپ اور لہو پلایا جائے گا۔ (ابراہیم :16)