وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَىٰ حَرْفٍ ۖ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ۖ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ
اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو اللہ کی عبادت ایک کنارے پر کرتا ہے، پھر اگر اسے کوئی بھلائی پہنچ جائے تو اس کے ساتھ مطمئن ہوجاتا ہے اور اگر اسے کوئی آزمائش آپہنچے تو اپنے منہ پر الٹا پھر جاتا ہے۔ اس نے دنیا اور آخرت کا نقصان اٹھایا، یہی تو صریح خسارہ ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : قیامت کے دن کا انکار کرنے والا نیکی کرنے کے معاملہ میں مخلص اور مستقل مزاج نہیں ہوتا۔ انسان اخلاص کے ساتھ نیکی کرے گا تو اسے قیامت کے دن اپنے سامنے پائے گا اگر نمودونمائش کے لیے کرے گا تو دنیا وآخرت میں نقصان پائے گا۔ مشرک، منافق اور قیامت پر یقین نہ رکھنے والے کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس وقت تک کرتا ہے جب تک اسے کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر اسے فائدہ حاصل ہو تو اللہ کی عبادت میں لگا رہتا ہے۔ اگر اسے کوئی آزمائش آجائے تو وہ الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ ایسے لوگ دنیا اور آخرت میں نقصان اٹھائیں گے۔ یہ ایسا کھلا اور بڑا نقصان ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔ پہلے پارے میں دین کی مثال آسمان سے نازل ہونے والی بارش کے ساتھ دی ہے۔ جس میں اندھیرے، بجلی اور کڑک ہوتی ہے۔ گویا کہ بارش میں فائدے بھی ہیں اور نقصان بھی۔ منافق کو فائدہ پہنچتا ہے تو دینی کام کرتا ہے، نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے تو پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ (البقرۃ: 10۔ 19) یہی حال مشرک اور قیامت کے منکر کا ہوتا ہے وہ اس وقت تک ہی خالصتاً اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے جب تک اس کی مشکل رفع نہیں ہوتی مشکل رفع ہوجائے تو دین اور اللہ تعالیٰ پر مطمئن رہتا ہے۔ مشکل حل ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شامل کرلیتا ہے یا پھر مزارات اور غیروں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ ایسا عقیدہ اور کردار ہے کہ جس کا دنیا میں بھی نقصان ہوگا اور آخرت میں ایسا نقصان ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔ عربی میں ” حَرَفٌ“ کا معنی کنارہ ہے اور یہ محاورہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ جس طرح ہماری زبان میں کسی شخص کی عجلت پسندی اور غیر مستقل مزاجی کو بیان کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کو چھوڑیے وہ تو بس کنارے پر بیٹھا ہوا ہے۔ یعنی اس کا کوئی اعتبار نہیں کہ وہ اس کام کو کب چھوڑ دے۔ نفع و نقصان کے بارے میں نبی (ﷺ) کا عقیدہ اور فرمان : (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) یَوْمًا فَقَالَ یَاغُلَامُ إِنِّیْ أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ اِحْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ إِذَ ا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلی أَنْ یَّنْفَعُوْکَ بِشَیْءٍ لَّمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَّمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن میں سواری پر رسول کریم (ﷺ) کے پیچھے سوار تھا آپ نے فرمایا : بچے! میں تجھے چند کلمات سکھاتاہوں۔ اللہ کو یاد رکھنا وہ تجھے یاد رکھے گا، اللہ کو یاد رکھے گا تو اسے اپنے سامنے پائے گا، جب سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر، جب مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کرنا۔ یقین رکھ کہ اگر تمام لوگ تجھے کوئی فائدہ دینے کے لیے جمع ہوجائیں۔ وہ اتنا ہی فائدہ پہنچا سکتے ہیں جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ رکھا ہے اور اگر وہ تجھے نقصان دینے پہ تل جائیں۔ تو تجھے اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا تیرے حق میں لکھا گیا ہے، قلمیں اٹھالی گئیں ہیں اور صحیفے خشک ہوچکے ہیں۔“ مسائل: 1۔ مشرک، منافق اور قیامت کے منکر صرف مفاد کی بنیاد پر دین اور اللہ تعالیٰ کا نام لیتے ہیں۔ 2۔ ابن الوقت کو اللہ تعالیٰ کی بندگی میں فائدہ پہنچے تو مطمئن ہوتا ہے۔ ورنہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ 3۔ مشرک اور منافق کو آخرت میں ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: دنیا اور آخرت میں نقصان پانے والے لوگ : 1۔ اپنے مالوں اور اولادوں کے بارے میں سستی کرنے والے دنیا اور آخرت میں نقصان اٹھائیں گے۔ ( المنافقون :9) 2۔ جو لوگ مساجد کو برباد کرتے ہیں وہ دنیا وآخرت میں ذلّت اٹھائیں گے۔ ( البقرۃ:114) 3۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں وہ دنیا وآخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے۔ ( ہود :21) 4۔ جن لوگوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی وہ دنیا وآخرت میں خسارہ پائیں گے۔ ( النحل :109) 5۔ منافق دنیا وآخرت میں خسارہ پائے گا۔ (الحج :11)