وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيهَا وَأَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَن فِي الْقُبُورِ
اور (اس لیے) کہ بے شک قیامت آنے والی ہے، اس میں کوئی شک نہیں اور (اس لیے) کہ یقیناً اللہ ان لوگوں کو اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں۔
فہم القرآن: (آیت 7 سے 10) ربط کلام : انسان کی پیدائش اور نباتات کی تخلیق کے حوالے سے قیامت کا ثبوت پیش کرنے کے بعد یہ ثابت کردیا ہے کہ جو شخص قیامت کا انکار کرتا ہے درحقیقت وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جھگڑا کرتا ہے۔ قیامت قائم کرنے کا مرکزی اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ ظالم کو اس کے ظلم کی ٹھیک ٹھیک سزا اور نیک لوگوں کو ان کے اعمال کی پوری پوری جزا دی جائے۔ جو شخص قیامت کا انکار کرتا ہے۔ درحقیقت وہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ کذب بیانی اور اس کے عدل و انصاف کا انکار کرتا ہے۔ ایسے شخص کے پاس کوئی عقلی اور نقلی دلیل نہیں ہوتی۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے جھوٹے موقف پر اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہوئے بحث و تکرار کرتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جھگڑا کرنے کے مترادف ہے۔ قیامت کا انکار کرنے والا۔ ناصرف علم سے تہی دست ہوتا ہے۔ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی روشن کتاب کی رہنمائی اور ہدایت سے بھی محروم ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے پاس دلائل نہیں ہوتے اس لیے وہ متکبرانہ انداز میں منہ موڑتے ہوئے لوگوں کو گمراہی کے راستے پر قائم رکھنے کے درپے رہتا ہے۔ اس کو دنیا میں ذلت اٹھانا پڑے گی اور آخرت میں جلا دینے والے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ اس کے بارے میں دوسرے مقام پر فرمایا کہ جب ان کے جسم جل جائیں گے تو ان کے جسم بدل دئیے جائیں گے۔ اس طرح ہمیشہ ہوتا رہے گا اور وہ ہمیشہ جہنم میں جلتے رہیں گے۔ (النساء :56) (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِّنْ سَبْعِیْنَ جُزْءً ا مِّنْ نَّارِ جَھَنَّمَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْھِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَّ سِتِّیْنَ جُزْءً اکُلُّھُنَّ مِثْلُ حَرِّھَا) [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ النَّارِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا تمہاری دنیا کی آگ‘ دوزخ کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک ہے آپ سے عرض کیا گیا‘ اے اللہ کے رسول (ﷺ) جلانے کو تو یہی آگ کافی تھی۔ آپ نے فرمایا دوزخ کی آگ کو دنیا کی آگ سے انہتر ڈگری بڑھا دیا گیا ہے۔ ہر ڈگری دنیا کی آگ کے برابر ہوگی۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا دو صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے پوچھا چالیس دن ؟ ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا۔ انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میں یہ نہیں کہتا۔ انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ یعنی ابوہریرہ (رض) بھول گئے کہ نبی (ﷺ) نے کتنی مدت بتلائی تھی اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے آپ (ﷺ) نے فرمایا، انسان کی دومچی کے علاوہ ہر چیز بو سیدہ ہوجائے گی۔ قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔“ [ رواہ البخاری : باب ﴿یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا﴾ ] (دومچی سے مراد اس کا کوئی خاص ذرّہ ہے جو محفوظ رہتا ہے۔) مسائل: 1۔ قیامت کو جھٹلانے والا حقیقتاً اللہ تعالیٰ سے جھگڑا کرتا ہے۔ 2۔ قیامت کو جھٹلانے والے کے پاس عقلی و نقلی دلیل نہیں ہوتی۔ 3۔ قیامت کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکنے والے کے لیے جلادینے والا عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے منکر کو عذاب : 1۔ قیامت کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکنے والے کے لیے جلا دینے والا عذاب ہوگا۔ (الحج :9) 2۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والے اور قیامت کو جھٹلانے والے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ (الروم :16) 3۔ قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔ (الفرقان :11)