وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ
اور داؤد اور سلیمان کو، جب وہ کھیتی کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے، جب اس میں لوگوں کی بکریاں رات چر گئیں اور ہم ان کے فیصلے کے وقت حاضر تھے۔
فہم القرآن : (آیت 78 سے 80) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء کو تکالیف کے ذریعے آزمایا جس میں وہ سرخرو ہوئے لیکن حضرت داؤد اور ان کے بیٹے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اقتدار اور اختیار دے کر آزمایا جس میں باپ، بیٹا کامیاب ہوئے۔ اس لیے بادشاہ انبیاء کا ذکر کیا جاتا ہے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) حضرت داؤد (علیہ السلام) کا دوسرے پارہ میں مختصر ذکر ہوچکا کہ وہ جالوت سے معرکہ آرائی میں اپنی شجاعت کا مظاہرہ کرچکے تھے جس وجہ سے بنی اسرائیل میں وہ معزز سمجھے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا ” اور خلیفۃ اللہ“ قرار دیا۔ آپ یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد یہودا کی نسل سے ہیں۔ ابن کثیر (رض) نے اپنی تاریخ میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کا سلسہ نسب اس طرح بیان کیا ہے :۔ داؤدبن ایشا بن عوید بن عابر بن سلمون بن فحشون بن عویناذب بن ارم بن حصرون بن فرص بن یہودا بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم تورات میں درج ہے کہ ایشا کے بہت سے بیٹے تھے حضرت داؤدان میں سب سے چھوٹے تھے۔ قرآن مجید میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کا اسم گرامی سولہ مقام پر آیا ہے : البقرہ : 251 النساء : 163 المائدہ : 78 الانعام : 84 اسراء : 55 الانبیاء : 78تا 79 النمل : 15۔ 16 السبا : 10۔ 13 ص : 17تا 20۔ 24 تا 30 کل آیات : 15 حضرت داؤدد (علیہ السلام) سے پہلے بنی اسرائیل میں ایک خاندان سے حکمران ہوتا تھا اور دوسرے خاندان میں نبوت کا سلسلہ چلتا تھا۔ یہودا کے خاندان میں نبوت کا سلسلہ تھا اور افراہیم کے خاندان میں حکومت تھی۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) پہلے شخص ہیں جن میں یہ دونوں نعمتیں یکجا کردی گئی تھیں وہ اللہ کے رسول بھی تھے اور صاحب تخت وتاج بھی۔ انبیاء کرام کی جماعت میں حضرت آدم (علیہ السلام) کے علاوہ کسی نبی کو ” خلیفۃ اللہ“ کے لقب سے یاد نہیں کیا گیا۔ سوائے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے وہ ایسے نبی ہیں جن کو خلیفۃ اللہ کا لقب دیا گیا۔ (ص :26) داؤد علیہ السلام کا اقتدار اور اختیار : ﴿وَ اٰتٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ عَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآءُ﴾ [ البقرہ :251] ” اور اللہ نے ان کو حکومت اور نبوت عطا کی اور جو علم چاہا وہ سکھایا۔“ ﴿وَکُلًّا اٰتَیْنَا حُکْمًا وَعِلْمًا﴾ [ الانبیاء :79] اور ہم نے داؤد اور سلیمان کو حکومت دی اور علم عطا کیا۔ ﴿یَا دَاوُوْدُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَۃً فِیْ الْأَرْضِ۔۔ الخ﴾ [آیت26] ” اے داؤدہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ لہٰذا لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ حکومت کرنا اور اپنے نفس کی پیروی نہ کرنا۔ نفس کی پیروی اللہ کی راہ سے غافل کر دے گی۔ بیشک جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے حضرت داؤد (علیہ السلام) کی اپنے فیصلے پر نظر ثانی : ایک مرتبہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی خدمت میں دو شخص حاضر ہوئے ان میں سے ایک نے کہا کہ میری تیار شدہ کھیتی کو اس کی بکریوں نے تباہ کردیا ہے دوسرے نے اس کا اعتراف کیا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فیصلہ دیا کہ مدّعی کا نقصان مدّعی علیہ کی بکریوں کی قیمت کے برابر ہے لہٰذا تاوان کی صورت میں پوری کی پوری بکریاں مدّعی کو دے دی جائیں۔ سلیمان (علیہ السلام) ابھی کم عمر تھے اس وقت اپنے والد ماجد کے پاس بیٹھے تھے عرض کرنے لگے ابا جان آپ کا فیصلہ صحیح ہے مگر اس سے بھی زیادہ بہتر شکل یہ ہے کہ مدّعی علیہ کی بکریاں مدّعی کے سپرد کردی جائیں وہ اس کے دودھ اور اون سے فائدہ اٹھائے اور مدعی علیہ کو حکم دیا جائے کہ وہ اس عرصہ میں مدّعی کے کھیت کی خدمت انجام دے۔ جب کھیت کی پیداوار اپنی اصلی حالت پر آجائے تو کھیت مدعی کے سپرد کر کے اپنا ریوڑ واپس لے لے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو بیٹے کی بات بہت پسند آئی اور اسی کے مطابق فیصلہ دیا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی قناعت پسندی : حضرت داؤد (علیہ السلام) کی حکومت و سلطنت بہت وسیع تھی اس کے باوجود مملکت کے مالیہ سے ایک درہم نہیں لیتے اور اپنا اور اہل و عیال کی معاش کا بوجھ بیت المال پر نہیں ڈالتے تھے اپنے ہاتھ کی کمائی سے حلال روزی حاصل کرتے تھے نبی کریم (ﷺ) کا ارشاد ہے کسی انسان کا بہترین رزق اسکے ہاتھ کی محنت سے کمایا ہوا رزق ہے۔ اللہ کے نبی حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنے ہاتھ سے روزی کماتے تھے۔ (بخاری : کتاب التجارۃ) حضرت داؤد (علیہ السلام) کی ٹیکنالوجی میں ترقی : ﴿۔۔ وَ اَلَنَّالَہُ الْحَدِیْد اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرْ فِی السَّرْدِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾[ السباء : 10-11] ”۔۔ اور ہم نے داؤد کے لیے لوہا نرم کردیا کہ بنائیں زرہیں کشادہ جنگی آہنی لباس اور ان کے جوڑ میں مناسب انداز میں فاصلہ رکھیں اور نیک کام کریں میں خوب دیکھ رہا ہوں جو کچھ تم کررہے ہو۔“ ﴿وَعَلَّمْنَاہُ صَنْعَۃَ لَبُوسٍ لَکُمْ لِتُحْصِنَکُمْ مِنْ بَأْسِکُمْ فَہَلْ أَنْتُمْ شَاکِرُونَ﴾ [ الانبیاء :80] ” اور ہم نے داؤدکوسکھائی زرہ بنانے کی صنعت تمہارے نفع کے لیے تاکہ تم لڑائی کے موقع پر اس سے بچاؤ حاصل کر سکوپس کیا تم شکر گزار بنتے ہو؟“ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو لوہے کے استعمال پر قدرت عطا کی تھی اور خاص طور پر جنگی مقاصد کے لیے اسلحہ اور زرہ سازی کا طریقہ سکھایا تھا۔ موجودہ زمانے کی تاریخی واثری تحقیقات سے ان آیات کے معنی پر جو روشنی پڑتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ دنیا میں لوہے کے استعمال کا دور (Iron-Age) 1200اور 1000ق م کے درمیان شروع ہوا ہے اور یہی حضرت داؤد (علیہ السلام) کا زمانہ ہے۔ اول اول شام اور ایشیائے کوچک کی حِتّی قوم (Hittites) کو جس کے عروج کا زمانہ 2000ق م سے 1200ق م تک رہا ہے، لوہے کے پگھلانے اور تیار کرنے کا ایک پیچیدہ طریقہ معلوم ہوا۔ وہ شدت کے ساتھ اس کو دنیا بھر سے راز میں رکھے رہی۔ مگر اس طریقے سے جو لوہا تیار ہوتا تھا وہ سونے چاندی کی طرح اتنا قیمتی ہوتا تھا کہ عام استعمال میں نہ آسکتا تھا۔ بعد میں فلستیوں نے بنی اسرائیل کو پیہم شکستیں دے کر انہیں فلسطین سے تقریباً بےدخل کردیا تھا، بائیبل کے بیان کے مطابق اس کے وجوہ میں سے ایک اہم وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ لوہے کی رتھیں استعمال کرتے تھے اور ان کے پاس دوسرے آہنی ہتھیار بھی تھے۔ ( یشوع، باب، 17، آیت 16، تضاۃ : باب، 1۔ آیت، 19، باب 4آیت، 2۔ 13 (1020 ق م) میں جب طالوت خدا کے حکم سے بنی اسرائیل کا فرمانروا ہوا تو اس نے پیہم شکستیں دے کر ان لوگوں سے فلسطین کا بڑا حصہ واپس لے لیا۔ اور پھر حضرت داؤد (علیہ السلام) 1000، 965ق م) نے نہ صرف فلسطین وشرق اردُن، بلکہ شام کے بھی بڑے حصے پر اسرائیلی سلطنت قائم کردی۔ اس زمانہ میں آہن سازی کا وہ راز جو حتیوں اور فلستیوں کے قبضے میں تھا بے نقاب ہوگیا اور صرف بے نقاب ہی نہ ہوا بلکہ آہن سازی کے ایسے طریقے بھی نکل آئے جن سے عام استعمال کے لیے لوہے کی سستی چیزیں تیار ہونے لگیں۔ فلسطین کے جنوب میں ادوم کا علاقہ خام لوہے (Iron ore) کی دولت سے مالا مال ہے اور حال میں آثار قدیمہ کی جو کھدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں ان میں بکثرت ایسی جگہوں کے آثار ملے ہیں جہاں لوہا پگھلانے کی بھٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ عقبہ اور اَیَلہ سے متصل حضرت سلیمان کے زمانے کی بندرگاہ عِصْیُون جابر کے آثار قدیمہ میں جو بھٹی ملی ہے اس کے معائنے سے اندازہ کیا گیا ہے کہ اس میں بعض وہ اصول استعمال کیے جاتے تھے جو آج جدید ترین زمانے کی (BlastFurnace) میں استعمال ہوتے ہیں۔ اب یہ ایک قدرتی بات ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اس جدید دریافت کو جنگی اغراض کے لیے استعمال کیا ہوگا۔ (تفہیم القرآن) تفسیر بالقرآن: قرآن مجید میں داؤد (علیہ السلام) کا ذکر خیر : 1۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کو بادشاہت اور نبوت سے نوازا۔ ( البقرۃ:251) 2۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو زبور عطا کی۔ ( النساء :163) 3۔ داؤد (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کی نافرمانی کی وجہ سے ان پر لعنت فرمائی۔ ( المائدۃ:78) 4۔ داؤد (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے۔ ( الانعام :84) 5۔ اے داؤد ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا کیا۔ (ص :25) 6۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو زبور عطا کی۔ (بنی اسرائیل :55) 7۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کو علم عطا فرمایا۔ (النمل :15) 8۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو فضل سے نوازا۔ (سبا :10) 9۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ پہاڑوں کو حمد و ثنا کے لیے مسخر کردیا۔ (الانبیاء :79) 10۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کی سلطنت مضبوط کی اور انہیں فیصلہ کن خطاب کا ملکہ دیا۔ ( ص28) 11۔ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو داؤد کے تابع کیا۔ ( الانبیاء :79)