وَنُوحًا إِذْ نَادَىٰ مِن قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ
اور نوح کو بھی جب اس نے اس سے پہلے پکارا تو ہم نے اس کی دعا قبول کرلی، پھر اسے اور اس کے گھر والوں کو بہت بڑی گھبراہٹ سے بچا لیا۔
فہم القرآن : (آیت 76 سے 77) ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے حضرت لوط (علیہ السلام) کو اس کی قوم سے نجات دی اور قوم کو نیست و نابود کیا۔ اسی طرح ” اللہ“ نے اپنی رحمت سے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو سیلاب سے بچایا۔ قوم کو غرق کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو اس وقت نبوت سے سرفراز فرمایا جب ان کی قوم کے لوگ مجسموں کے پجاری بن چکے تھے۔ سورۃ العنکبوت آیت 14میں بیان کیا گیا ہے کہ نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال قوم کی اصلاح کرنے میں صرف فرمائے۔ سورۃ نوح میں یہ وضاحت فرمائی کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ فریاد کی کہ میرے رب میں نے اپنی قوم کو رات اور دن، انفرادی اور اجتماعی طور پر سمجھانے کی کوشش کی لیکن میری بھرپور کوشش کے باوجود یہ قوم شرک اور برائی میں بڑھتی ہی چلی گئی۔ قوم نہ صرف جرائم میں آگے بڑھتی گئی بلکہ الٹا انھوں نے نوح (علیہ السلام) کے خلاف گمراہ ہونے کا پراپیگنڈہ کرنے کے ساتھ ان سے بار بار مطالبہ کیا کہ اے نوح! اگر تو واقعی اللہ کا سچا نبی ہے تو ہمارے لیے عبرت ناک عذاب کی بددعا کیجیے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے نہایت ہی مجبور ہو کر ان کے لیے بد دعا کی ” اے میرے رب میں ان کے مقابلے میں بالکل بے بس اور مغلوب ہوچکا ہوں بس تو میری مدد فرما۔“ (القمر :10) ” حضرت نوح (علیہ السلام) نے بد دعا کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور یہ بھی درخواست کی کہ میرے رب اب زمین پر کافروں کا ایک شخص بھی نہیں بچنا چاہیے کیونکہ ان میں سے جو بھی پیدا ہوگا وہ فاسق اور کافر ہی پیدا ہوگا۔“ ( نوح 25تا27) اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی بد دعا قبول کرتے ہوئے انھیں حکم دیا کہ آپ میرے سامنے ایک کشتی بنائیں جب نوح (علیہ السلام) کشتی بنا رہے تھے تو ان کی قوم نے ان کو بار بار تمسخر کا نشانہ بنایا۔ جس کے جواب میں نوح (علیہ السلام) فقط انھیں یہی فرماتے آج تم مجھے استہزاء کانشانہ اور تماشا بنا رہے ہو لیکن کل تم ہمیشہ کے لیے مذاق اور عبرت کا نشان بن جاؤ گے۔ ( ھود آیت 37تا39) قوم نوح پر اللہ تعالیٰ نے پانی کا ایسا عذاب نازل فرمایا کہ جس کے بارے میں سورۃ القمر آیت 11، 12 اور سورۃ المؤمنون، آیت 27میں بیان ہوا ہے کہ آسمان کے دروازے کھل گئے زمین سے چشمے پھوٹ نکلے یہاں تک کہ تنور پھٹ پڑا۔ اس طرح نوح (علیہ السلام) کے نافرمان بیٹے سمیت ان کی قوم کو پانی میں ڈبکیاں دے دے کر ختم کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا اس قوم پر اس قدر غضب ہوا کہ جب نوح (علیہ السلام) کا بیٹا پانی میں ڈبکیاں لے رہا تھا تو حضرت نوح (علیہ السلام) کو بحیثیت باپ ترس آیا انھوں نے اللہ تعالیٰ سے اس کے حق میں دعا کرتے ہوئے کہا، میرے رب میرا بیٹا بھی ڈوب رہا ہے حالانکہ تیرا فرمان تھا کہ میں تیرے اہل کو بچا لوں گا۔ الٰہی تیرا وعدہ برحق ہے۔ جواب آیا اے نوح تیرا بیٹا صالح نہ ہونے کی وجہ سے تیرے اہل میں شمار نہیں۔ اب مجھ سے ایسا سوال نہ کرنا۔ ورنہ تجھے جاہلوں میں شمار کروں گا۔ اس پر حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہوئے معافی طلب کی اور درخواست کی مجھ پر مہربانی کی جائے ورنہ میں بھی نقصان پانے والوں میں سے ہوجاؤں گا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والے سلامت اور محفوظ رہے اور باقی قوم کو غرقاب کردیا گیا۔ کیونکہ ان کی قوم کفر و شرک میں اندھی ہوچکی تھی۔ ( ھود : 45تا48) عذاب کی کیفیت : قوم نوح پر چالیس دن مسلسل دن، رات بے انتہا بارش برستی رہی یہاں تک کہ جگہ جگہ زمین سے چشمے پھوٹ پڑے۔ حتٰی کہ تنور پھٹ پڑا اللہ تعالیٰ نے طوفان کے آغاز میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ اللہ کا نام لے کر کشتی میں سوار ہوجائیں اور اپنے ساتھ ہر جاندار کا جوڑا جوڑا یعنی نر اور مادہ دو دو کشتی میں اپنے ساتھ سوار کرلیں۔ البتہ کسی کافر اور مشرک کو کشتی میں سوار نہ کیا جائے۔ (ہود : 40تا42) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی فریاد قبول کی انھیں اور ان کے ساتھیوں کو عظیم غم سے نجات عطا کی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی مدد فرمائی اور ان کی قوم کو غرق کردیا۔ تفسیر بالقرآن: نوح (علیہ السلام) کی قوم کی تباہی کا منظر : 1۔ قوم نوح نے جب رسولوں کی تکذیب کی تو ہم نے انھیں غرق کردیا اور لوگوں کے لیے باعث عبرت بنا دیا۔ (الفرقان :37) 2۔ ہم نے نوح (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور تکذیب کرنے والوں کو غرق کردیا۔ (الاعراف : 64) 3۔ قوم نے نوح (علیہ السلام) کی بات نہ مانی تو ہم نے انھیں غرق کردیا۔ (یونس :73) 4۔ ہم نے نوح (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور بقیہ کو غرق کردیا۔ (الشعراء : 119۔120)