سورة الأنبياء - آیت 45

قُلْ إِنَّمَا أُنذِرُكُم بِالْوَحْيِ ۚ وَلَا يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَاءَ إِذَا مَا يُنذَرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہہ دے میں تو تمھیں صرف وحی کے ساتھ ڈراتا ہوں اور بہرے پکارکو نہیں سنتے، جب کبھی ڈرائے جاتے ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 45 سے 46) ربط کلام : ایک دفعہ پھر منکرین حق کو انتباہ کیا گیا ہے۔ اے پیغمبر (ﷺ) ! ان سے فرمائیں کہ میں تمھیں اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعے ڈراتاہوں۔ لیکن کانوں سے بہرے لوگ اس وحی کو ناسُنتے ہیں اور نا ہی اس کے انتباہ سے ڈرتے ہیں۔ اگر انھیں ان کے رب کی طرف سے عذاب کا معمولی جھٹکا بھی آجائے تو یہ آہ و زاری اور اپنے آپ پر افسوس کا اظہار کرنے کے ساتھ اعتراف کریں گے کہ ہم ہی ظالم تھے۔ جب انسان مفاد کا بندہ اور تعصب کا غلام ہوجائے تو پھر نہ وہ حقیقت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، نہ اچھی بات کو سننا گوارا کرتا ہے اور نہ ہی کسی بات پر غور و فکر کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کے کان سننے کے قابل، آنکھیں دیکھنے اور عقل کے دریچے اس وقت کھلتے ہیں جب ان کے سروں پر عذاب منڈلانے لگتا ہے۔ ایسے لوگوں کی اسی حالت کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اس وقت انھیں سننے اور دیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ نبی اکرم (ﷺ) پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ اپنی طرف سے ہمیں دھمکیاں دیتا ہے۔ اس کے جواب میں آپ کو حکم دیا گیا۔ کہ آپ وضاحت فرمائیں کہ میں اپنی طرف سے نہیں ” اللہ“ کی وحی کے مطابق تمہیں سمجھاتا اور تمہارے انجام سے ڈراتا ہوں۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے عذاب کے وقت مجرموں کا اعتراف : 1۔ مجرم کہیں گے ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافرتھے۔ (الانعام :130) 2۔ اے ہمارے پروردگار ہماری بدبختی نے ہمیں گھیر لیا تھا اور ہم کافر ہوئے۔ (المومنون :106) 3۔ ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں کیا یہاں سے نکلنے کا راستہ ہے۔ (المومن :11)