وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۖ أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ
اور ہم نے تجھ سے پہلے کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی، سو کیا اگر تو مرجائے تو یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 34 سے 35) ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ نے رات کے بعد دن، چاند اور سورج کو بنایا اور ان کے لیے دائرہ کار اور وقت مقرر کیا اسی طرح ہی ہر انسان کا ایک وقت اور اسے کچھ ذمہ داریاں تفویض کیگئی ہیں۔ جس طرح چاند غائب اور سورج غروب ہوجاتا ہے اسی طرح ہی انسان کی زندگی کا سورج غروب ہوجاتا ہے۔ نبی کریم (ﷺ) بھی اس قانون سے مستثنیٰ نہیں تھے۔ پوری کائنات کا نظام صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس نے ایک معینّہ وقت تک ہر چیز کی ایک ڈیوٹی لگا رکھی ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی ڈیوٹی نبھا رہا ہے۔ جس طرح ہر چیز کی ایک ذمہ داری ہے اسی طرح ہی انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ذمہ ” اللہ“ کا پیغام لوگوں تک پہنچانا تھا۔ اسی فرض کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے انبیاء اور نبی آخر الزماں (ﷺ) کو مبعوث فرمایا تھا۔ آپ نے لوگوں کے سامنے عقیدۂ توحید اور اس کے دلائل پیش فرمائے تو لوگوں نے ان دلائل کی طرف توجہ دینے کی بجائے نہ صرف اعراض کیا بلکہ آپ کی جان لینے کے درپے ہوگئے۔ اس پر آپ (ﷺ) کو موت جیسی مسلمہ حقیقت بتلانے کے ساتھ تسلّی دی جا رہی ہے کہ اے محبوب پیغمبر ! گھبرانے کی ضرورت نہیں ایک وقت آنے والا ہے کہ جب آپ بھی اس دنیا سے کوچ کریں گے اور آپ کے دشمن بھی موت کے گھاٹ اتریں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ لہٰذا آپ کو بھی موت آئے گی اور آپ کے مخالفوں نے بھی یہاں ہمیشہ نہیں رہنا ہے۔ ہر انسان نے موت کے گھاٹ اترنا ہے۔ ہم لوگوں کو نیکی اور برائی، تنگی اور کشادگی کے ساتھ آزماتے ہیں، پھر ہماری ہی طرف تمھارا لوٹ کر آنا ہے۔ موت وہ حقیقت ہے جس کا انکار کرنا کسی عقلمند کے لیے ممکن نہیں۔ یہاں تک کہ سرور دو عالم (ﷺ) کو بھی موت کی آغوش میں جانا پڑا۔ جو شخص موت کی وادی میں داخل ہوا، وہ واپس نہیں آیا اور نہ آئے گا۔ البتہ ہندؤوں کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد آدمی کی روح دنیا میں واپس آجاتی ہے۔ اس عقیدہ کو آوگون کا نام دیا گیا۔ افسوس ہندؤوں سے متاثر ہو کر کچھ مسلمانوں نے یہ عقیدہ بنایا اور پھیلایا کہ نیک لوگوں کی روحیں دنیا میں واپس آتی ہیں۔ حالانکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو خیر اور شر کے ساتھ آزماتا ہے خوش بخت ہے وہ انسان جس نے شرکے مقابلے میں خیر کا انتخاب کیا اور اپنے رب کی بارگاہ میں سرخرو ہوا۔ نبی محترم (ﷺ) کے آخری لمحات : (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ اِنَّ مِنْ نِّعَمِ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیَّ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) تُوُفِّیَ فِیْ بَیْتِیْ وَفِیْ یَوْمِیْ وَبَیْنَ سَحْرِیْ وَنَحْرِیْ وَاَنَّ اللّٰہَ جَمَعَ بَیْنَ رِیْقِیْ وَرِیْقِہٖ عِنْدَ مَوْتِہٖ دَخَلَ عَلَیَّ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ اَبِیْ بَکْرٍ وَبِیَدِہٖ سِوَاکٌ وَّاَنَا مُسْنِدَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) فَرَاَیْتُہٗ یَنْظُرَ اِلَیْہِ وَعَرَفْتُ اَنَّہٗ یُحِبُّ السِّوَاکَ فَقُلْتُ اٰخُذُہٗ لَکَ فَاَشَارَ بِرَاْسِہٖ اَنْ نَّعَمْ فَتَنَاوَلْتُہٗ فَاشْتَدَّ عَلَیْہِ وَقُلْتُ اُلَیِّنُہٗ لَکَ فَاَشَارَ بِرَاْسِہٖ اَنْ نَّعَمْ فَلَیَّنْتُہٗ فَاَمَرَّہٗ وَبَیْنَ یَدَیْہِ رَکْوَۃٌ فِیْھَامَاءٌ فَجَعَلَ یُدْخِلُ یَدَیْہِ فِی الْمَاءِ فَیَمْسَحُ بِھِمَا وََجْہَہٗ وَیَقُوْلُ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ اِنَّ لِلْمَوْتِ سَکَرَاتٌ ثُمَّ نَصَبَ یَدَہٗ فَجَعَلَ یَقُوْلُ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی حَتّٰی قُبِضَ وَمَالَتْ یَدُہٗ) [ رواہ البخاری : باب مَرَضِ النَّبِیِّ (ﷺ) وَوَفَاتِہِ ] حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مجھ پر بے پناہ انعامات میں سے ایک انعام یہ ہے‘ کہ رسول اکرم (ﷺ) میرے گھر میں‘ میری باری کے دن‘ میرے سینے اور میری گردن کے درمیان فوت کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی وفات کے قریب میرے لعاب دہن اور آپ کے لعاب دہن کو جمع فرمایا وہ اس طرح کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر میرے پاس آئے اس کے ہاتھ میں مسواک تھی میں نے رسول اکرم (ﷺ) کو سہار ا دے رکھا تھا۔ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ مسواک کی طرف متوجہ ہیں۔ میں جان گئی کہ آپ مسواک کرنا چاہ رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کیا آپ کے لیے مسواک لوں؟ آپ نے اثبات میں سر ہلایا میں نے مسواک آپ کو دی آپ نے مسواک کرنا شروع کی لیکن وہ سخت تھی۔ پھر میں نے پوچھا‘ کیا میں اسے آپ کے لیے نرم کردوں؟ آپ نے اپنے سر سے اشارہ فرمایا کہ ہاں۔ چنانچہ میں نے مسواک کو آپ کے لیے نر م کیا۔ آپ نے مسواک کی اور آپ کے ہاتھوں میں پانی کا بر تن تھا۔ آپ پانی میں اپنے ہاتھ ڈالتے اور اپنے چہرے پر ہاتھ ملتے اور کہتے لاَ اِ لٰہ اِ لَّا اللّٰہ بلا شبہ سکرات موت بر حق ہیں۔ پھر اپنا ہاتھ بلند کیا اور رفیق اعلیٰ کی دعا کر رہے تھے۔ حتیٰ کہ آپ کی روح قبض کرلی گئی اور آپ کا دست مبارک جھک گیا۔ ( عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ لَمَّا ثَقُلَ النَّبِیُّ یَتَغَشَّاہُ الْکَرْبُ فَقَالَتْ فَاطِمَۃُ وَ اکَرَبَ اَبَاہْ ! فَقَالَ لَہَا لَیْسَ عَلٰی اَبِیْکَ کَرْبٌ بَعْدَ الْیَوْمِ فَلَمَّا مَاتَ قَالَتْ یَا اَبَتَاہُ اَجَابَ رَبَّا دَعَاہٗ یَااَبَتَاہٗ مِنْ جَنَّتِ الْفِرْدَوْسِ مَاْوَاہٗ۔ یَا اَبَتَاہٗ اِلٰی جِبْرَائِیْلَ نَنْعَاہٗ فَلَمَّا دُفِنَ قَالَتُ فَاطِمَۃُ یَا اَنَسُ اَطَابَتْ اَنْفُسُکُمْ اَنْ تَحْثُوْا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ التُّرَابَ۔) [ رواہ البخاری : باب مَرَضِ النَّبِیِّ (ﷺ) وَوَفَاتِہِ ] ” حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) شدید بیمار ہوئے۔ آپ پر بیماری کی وجہ سے غشی طاری ہوئی تو حضرت فاطمہ (رض) پکار اٹھیں‘ ہائے ابو جان کی تکلیف ! رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا‘ آج کے بعد تیرے باپ کو کوئی تکلیف نہ ہوگی۔ جب آپ (ﷺ) نے وفات پائی تو حضرت فاطمہ (رض) نے کہا ہائے ابا جان! آپ نے اپنے رب کی دعوت قبول کرلی۔ ابا جان! آپ کا مقام جنت ہے۔ اے ابو جان ہم جبرئیل کو آپ کی موت پر مطلع کرتے ہیں۔ پھر جب آپ کو دفنایا گیا تو حضرت فاطمہ (رض) نے کہا‘ اے انس ! تم نے رسول (ﷺ) پر مٹی ڈالنے پر اپنے آپ کو کیسے آمادہ کرلیا ؟“ تفسیر ماجدی میں مولانا عبدالماجد دریا آبادی ﴿وَمَا مُحَّمْدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ﴾ کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں۔ ان سب نے اپنے وقت پر دنیا کو خیر باد کہا سو یہ بھی اپنے وقت موعود پر وفات پائیں گے۔ اور اس بات میں نہ کوئی بات حیرت کی ہوگی اور نہ کوئی پہلو اہانت کا نکلے گا۔ رسول کا مرتبہ خوب سمجھ لیا جائے رسول محض ہوتے ہیں صاحب وحی عقیدہ حلول، مظہریت، ابدیّت وغیرہ پر ضرب لگانے کے لیے مرتبہ رسالت کی بار بار تصریح ضروری تھی۔ حضور کی وفات کا حادثہ اس قدر سخت تھا کہ حضرت فاروق (رض) جیسے باوقار اور عالی ظرف صبر وضبط کھو بیٹھے اور بے اختیار ہوگئے۔ مسائل: 1۔ کوئی انسان دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔ 2۔ سرور دو عالم (ﷺ) کو بھی موت نے آلیا۔ 3۔ ہر انسان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو نیکی اور بدی کے ساتھ آزماتا ہے۔ 5۔ بالآخر ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کے ہاں لوٹنا ہے۔ تفسیر بالقرآن: موت ایک حقیقت ہے : 1۔ موت کا وقت مقرر ہے۔ (آل عمران :145) 2۔ موت کی جگہ متعین ہے۔ (آل عمران :154) 3۔ موت کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ (آل عمران :168) 4۔ موت سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ (النساء :78) 5۔ سب کو موت آنی ہے۔ (الانبیاء :35) 6۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر کسی نے مرنا ہے۔ (الرحمن : 26، القصص :88) 7۔ ” اللہ“ نے کسی بشر کو ہمیشہ رہنے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ ( الانبیاء :34)