وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَّحْفُوظًا ۖ وَهُمْ عَنْ آيَاتِهَا مُعْرِضُونَ
اور ہم نے آسمان کو محفوظ چھت بنایا اور وہ اس کی نشانیوں سے منہ پھیرنے والے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 32 سے 33) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے اِلٰہ ہونے کا چھٹا، ساتواں اور آٹھواں ثبوت۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو زمین والوں کے لیے محفوظ چھت بنایا۔ اس کے باوجود لوگ اپنے رب کی نشانیوں سے اعراض کرتے ہیں۔ اسی نے رات اور دن پیدا کیے، چاند اور سورج بنائے جو فضا میں تیر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو کسی ستون کے بغیر چھت بنایا یہ ایسی مضبوط چھت ہے کہ نامعلوم کتنے عرصہ سے قائم ہے اور اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ اسے قائم رکھے گا اس میں کوئی نشیب و فراز نہیں دیکھنے والے کو بالکل ہموار، صاف اور شفاف نظر آتی ہے۔ نہ اس کا رنگ بدلا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی دراڑ اور جھکاؤ واقع ہوا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ اس نے سات آسمان اوپر نیچے بنائے دیکھنے والا اس کی آفرینش میں کوئی نقص نہیں پا سکتا پھر آنکھ اٹھا کر دیکھ۔ کیا تجھے اس میں کوئی شگاف اور دراڑ نظر آتی ہے ؟ اس نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین فرمایا اور اس میں ستارے بنائے جو شیاطین کے لیے کوڑوں کا کام دیتے ہیں۔ اس نے شیاطین کے لیے جلا دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (الملک : 3۔5) اُسی نے رات اور دن بنائے۔ سورج اور چاند اپنے اپنے مدار میں چل رہے ہیں۔ اگر ” اللہ“ رات کو قیامت تک طویل کر دے تو اس کے سوا کسی کے پاس طاقت نہیں کہ جو دن کی روشنی لا سکے لیکن اس کے باوجود لوگ حقیقت سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اگر اللہ تعالیٰ دن کو قیامت تک لمبا کر دے تو اس کے سوا کسی کے پاس قوت نہیں جو رات لے آئے جس میں تم سکون پاتے ہو لیکن لوگ غور نہیں کرتے۔ (القصص : 71۔72) چاند اور سورج کی طرف دیکھو حقیقتاً کوئی نہیں جانتا کتنی مدت سے رواں دواں ہیں یہ اس وقت تک طلوع اور غروب ہوتے رہیں گے جب تک ان کے بنانے والی ذات ان کو رواں دواں رہنے کا حکم دے گی۔ جو نہی اس کا حکم ہوگا کہ رک جاؤ تو سورج بے حرارت اور چاند بے نور ہو کر زمین پر گر پڑے گا۔ لیکن جب تک انھیں چلتے رہنے کا حکم ہے اس وقت تک سورج میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ چاند کو پالے اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے ہر کوئی اپنے مدار میں گھوم رہا ہے۔ (یٰس :40) (عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) لأَبِی ذَرٍّ حینَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ تَدْرِی أَیْنَ تَذْہَبُ قُلْتُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّہَا تَذْہَبُ حَتَّی تَسْجُدَ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَتَسْتَأْذِنَ فَیُؤْذَنَ لَہَا، وَیُوشِکُ أَنْ تَسْجُدَ فَلاَ یُقْبَلَ مِنْہَا، وَتَسْتَأْذِنَ فَلاَ یُؤْذَنَ لَہَا، یُقَالُ لَہَا ارْجِعِی مِنْ حَیْثُ جِئْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِہَا، فَذَلِکَ قَوْلُہُ تَعَالَی ﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَہَا ذَلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ﴾ [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا‘ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کو علم ہے۔ آپ نے فرمایا سورج عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے۔ اسے اجازت مل جاتی ہے قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے گا اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو وہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرے گا اس کو اجازت نہ ملے۔ اسے حکم ہو کہ جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ نے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَال الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ مُکَوَّرَانِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : قیامت کے دن سورج اور چاند کو لپیٹ لیا جائے گا۔“ مسائل: 1۔ ” اللہ“ نے ہی رات اور دن بنائے۔ 2۔ ” اللہ“ نے ہی چاند اور سورج بنا کر ان کے لیے مدار قائم کیے۔ 3۔ چاند اور سورج اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: رات اور دن کا نظام : 1۔ دن اور ات کے مختلف ہونے اور زمین و آسمان کی پیدائش میں نشانیاں ہیں۔ (یونس :6) 2۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش، دن اور رات کی گردش، سمندر میں کشتیوں کے چلنے، آسمان سے بارش نازل ہونے، بارش سے زمین کو زندہ کرنے، چوپایوں کے پھیلنے، ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے مسخر ہونے میں (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ :164) 3۔ رات اور دن کے مختلف ہونے، آسمان سے رزق اتارنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (الجاثیۃ:5)