وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ
اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنائے کہ وہ انھیں ہلانہ دے اور ہم نے ان میں کشادہ راستے بنا دیے، تاکہ وہ راہ پائیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ! اللہ تعالیٰ کے اِلٰہ ہونے کا تیسرا، چوتھا اور پانچواں ثبوت۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا فرما کر اس میں بڑے بڑے پہاڑ نصب فرمائے تاکہ زمین اپنے بوجھ کی وجہ سے ہلنے اور ایک طرف جھکنے نہ پائے۔ پھر اس میں کشادہ راہیں بنائیں تاکہ لوگوں کو ایک سے دوسرے مقام تک جانے کے لیے سہولت اور رہنمائی حاصل ہو۔ عربی زبان جاننے والا ہر شخص جانتا ہے کہ عربی لغت میں ارض کا لفظ واحد اور جمع دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جہاں بھی الارض کا لفظ آیا ہے اس سے مراد تہہ بہ تہہ سات زمینیں ہیں۔ اٹھائیسویں پارہ میں زمین کے لیے بھی ﴿ مِثْلَھُنَّ﴾ کا لفظ استعمال فرما کر سات زمینیں ثابت کی ہیں۔ (الطلاق :12) تیسویں پارے میں زمین اور پہاڑوں کے بارے میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں کہ : ” کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا ؟ اور پہاڑوں کو میخوں کے طور پر زمین پر نہیں گاڑا۔ (النباء :7) اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں پر قیمتی درخت، نباتات اور برف کی شکل میں پانی کے ذخائر جمع کیے۔ پہاڑوں کے اندر اور ان کے نیچے بے شمار قسم کی گراں قیمت معدنیات کے خزانے محفوظ فرمائے اور پہاڑوں کے درمیان راستے رکھے۔ جو نہ صرف ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کے لیے راستے ہیں بلکہ پانی کی گزر گا ہیں ہیں۔ جن سے دریا سیراب ہوتے ہیں اور دریاؤں سے نہروں کی شکل میں پانی مختلف علاقوں میں پہنچتا ہے۔ میخوں کی مانند پہاڑ : ارضیات میں ” بل پڑنے“ (Folding) کا مظہر حالیہ دریافت شدہ حقیقت ہے۔ قشر ارض (Crust) یعنی پہلی تہہ میں بل پڑنے کی وجہ سے پہاڑی سلسلے وجود میں آئے ہیں۔ قشر ارض جس پرہم رہتے ہیں، ٹھوس چھلکے کی طرح ہے، جب کہ کرۂ ارض کی اندرونی پرتیں، (LaYers) نہایت گرم اور مائع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمین کا اندرون کسی بھی قسم کی زندگی کے لیے قطعاً غیر موزوں ہے۔ آج ہمیں یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ پہاڑوں کی قیام پذیری (Stability) کا تعلق، قشر ارض میں بل پڑنے کے عمل سے بہت گہرا ہے۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ زمین کارداس (Radius) یعنی نصف قطر تقریباً 6،035 کلومیٹر ہے اور قشر ارض، جس پر ہم رہتے ہیں اس کے مقابلے میں بہت پتلی ہے، جس کی موٹائی 2کلومیٹر سے لے کر 35کلومیٹر تک ہے۔ چونکہ قشر ارض بہت پتلی ہے، لہٰذا اس کے تھرتھرانے یا ہلنے کا امکان بھی بہت قوی ہے اس میں پہاڑ خیمے کی میخوں کا کام کرتے ہیں جو قشرِارض کو تھام لیتی ہیں اور اسے قیام پذیری عطا کرتے ہیں قرآن پاک میں بھی عین یہی کہا گیا ہے : ﴿اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدًا۔ وََّالْجِبَالَ اَوْتَادًا۔﴾[ النباء : 6۔7] ” کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔“ یہاں عربی لفظ ﴿اَوْتَادً﴾ کا مطلب بھی میخیں ہی نکلتا ہے، ویسی ہی میخیں جیسی کہ خیمے کو باندھ رکھنے کے لیے لگائی جاتی ہیں۔ ارضیاتی تہوں (Folds) یا سلوٹوں کی گہری پوشیدہ بنیادیں بھی یہی ہیں۔ earth نام کی ایک کتاب ہے جو دنیا بھر کی کئی جامعات میں ارضیات کی بنیادی حوالہ جاتی نصابی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب کے مصنفین میں ایک نام ڈاکٹر فرینک پریس کا بھی ہے، جو 12سال تک امریکہ کی اکیڈمی آف سائنسز کے سربراہ رہے ہیں۔ اس کتاب میں وہ پہاڑوں کی وضاحت، کلہاڑی کے پھل جیسی شکل (Wedge Shape) سے کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہاڑ بذات خود ایک وسیع تر وجود کا ایک چھوٹا حصہ ہوتا ہے۔ جس کی جڑیں زمین میں بہت گہرائی تک اتری ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر فرینک کے مطابق، قشر ارض کی پائیداری اور قیام پذیری میں پہاڑ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پہاڑوں کے فائدے کی وضاحت کرتے ہوئے، قرآن پاک واضح طور پر فرماتا ہے کہ انہیں اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ یہ زمین کو لرز نے سے بچائیں : ﴿وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَبِھِمْ﴾[ الانبیاء :31] ” اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔“ اسی طرح کے ارشادات سورۃ لقمان، آیت : 10اور سورۃ النحل اور آیت 15میں بھی وارد ہوئے ہیں۔ لہٰذا قرآن پاک کے فراہم کردہ بیانات جدید ارضیاتی معلومات سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ پہاڑوں کو مضبوطی سے جماد یا گیا ہے : سطح زمین متعدد ٹھوس ٹکڑوں، یعنی ” پلیٹوں“ میں بٹی ہوئی ہے جن کی اوسط موٹائی تقریباً 100کلومیٹر ہے۔ یہ پلیٹیں، جزوی طور پر پگھلے ہوئے حصے کے اوپر گویا تیر رہی ہیں، اس حصے کو (Aesthenosphere) کہا جاتا ہے۔ پہاڑ عموماً پلیٹوں کی بیرونی حدود پر پائے جاتے ہیں۔ قشر ارض، سمندروں کے نیچے 5کلومیٹر موٹی ہوتی ہے، جب کہ خشکی پر اس کی اوسط موٹائی 35کلومیٹر تک ہوتی ہے البتہ پہاڑی سلسلوں میں قشر ارض کی موٹائی 80کلومیٹر تک جا پہنچتی ہے، یہی وہ مضبوط بنیادیں ہیں جن پر پہاڑ کھڑے ہیں۔ پہاڑوں میں برکات : اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو صرف میخوں کے طور پر ہی نہیں بنایا بلکہ ان میں بے شمار فوائد رکھ دیے ہیں۔ پہاڑوں پر برف جمتی ہے جو اللہ کی طرف سے پانی ذخیرہ کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ پہاڑوں میں چشمے جاری ہوتے ہیں جو صاف شفاف پانی کا وسیلہ ہیں۔ تقریباً تمام دریاؤں کا آغاز پہاڑوں سے ہوتا ہے۔ پہاڑوں میں سونے کے ذخائر اور بے شمار قسم کے قیمتی پتھر اور معدنیات پائی جاتی ہیں۔ جو زمین کی پیداوار سے ہزاروں گناقیمتی ہیں۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ لَمَّا خَلَقَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ الأَرْضَ جَعَلَتْ تَمِیدُ فَخَلَقَ الْجِبَالَ فَأَلْقَاہَا عَلَیْہَا فَاسْتَقَرَّتْ فَتَعَجَّبَتِ الْمَلاَئِکَۃُ مِنْ خَلْقِ الْجِبَالِ فَقَالَتْ یَا رَبِّ ہَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْءٌ أَشَدُّ مِنَ الْجِبَالِ قَالَ نَعَمِ الْحَدِیدُ قَالَتْ یَا رَبِّ ہَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْءٌ أَشَدُّ مِنَ الْحَدِیدِ قَالَ نَعَمِ النَّارُ قَالَتْ یَا رَبِّ ہَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْءٌ أَشَدُّ مِنَ النَّارِ قَالَ نَعَمِ الْمَاءُ قَالَتْ رَبِّ فَہَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْءٌ أَشَدُّ مِنَ الْمَاءِ قَالَ نَعَمِ الرِّیحُ قَالَتْ یَا رَبِّ فَہَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْءٌ أَشَدُّ مِنَ الرِّیحِ قَالَ نَعَمِ ابْنُ آدَمَ یَتَصَدَّقُ بِیَمِینِہِ یُخْفِیہَا مِنْ شِمَالِہِ) [ رواہ احمد : مسند انس بن مالک] (وقال الترمذی ھذا حدیث غریب) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو تخلیق فرمایا تو وہ ہلنا شروع ہوگئی تو اللہ نے پہاڑوں کو پیدا کر کے اس پر گاڑ دیا تو وہ ٹھہر گئی فرشتوں نے پہاڑ کی تخلیق پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا اے پروردگار کیا تو نے پہاڑوں سے بڑھ کے کوئی سخت چیز پیدا کی ہے ؟ اللہ نے فرمایا ہاں ! لوہا، فرشتوں نے عرض کی کیا لوہے سے بڑھ کر کوئی سخت چیز تخلیق کی گئی ہے ؟ اللہ نے فرمایا آگ۔ فرشتوں نے دریافت کیا، کیا آگ سے بھی سخت چیز آپ نے تخلیق فرمائی ہے ؟ اللہ نے فرمایا پانی اس سے بھی سخت تر ہے۔ انہوں نے عرض کی کیا پانی سے بڑھ کر بھی اے اللہ تو نے کسی چیز کو تخلیق کیا ہے ؟ اللہ نے فرمایا ہوا، فرشتوں نے سوال کیا اے پروردگار کیا تو نے ہوا سے بھی بڑھ کر کوئی سخت چیز پیدا کی ہے ؟ اللہ نے فرمایا ابن آدم کا اپنے دائیں ہاتھ سے صدقہ کرنا ہے جس کا بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے زمین بنا کر اس میں پہاڑ نصب فرمائے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے درمیان راستے بنائے۔ تفسیر بالقرآن: پہاڑوں کے فوائد اور ان کی ساخت : 1۔ اللہ نے تمھارے لیے سایہ دار چیزیں بنائیں اور اسی نے تمھارے لیے پہاڑوں میں چھپنے کی جگہ بنائی۔ (النحل :81) 2۔ کیا ہم نے زمین کو بچھونا اور پہاڑوں کو میخیں نہیں بنایا۔ (النباء : 7۔8) 3۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کے اوپر پہاڑگاڑ دیے۔ (النازعات :32) 4۔ تم پہاڑوں کو کھود کھود کر خوبصورت گھر بناتے ہو۔ (الشعراء :149) 5۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں میں راستے بنائے۔ (الانبیاء :31)