سورة الأنبياء - آیت 26

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۚ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور انھوں نے کہا رحمان نے کوئی اولاد بنا رکھی ہے، وہ پاک ہے، بلکہ وہ بندے ہیں جنھیں عزت دی گئی ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں نہ اس کی اولاد ہے اور نہ ہی کوئی شخصیت اس کی ذات کا حصہ اور نہ ہی کوئی اس کی صفات میں شریک ہے۔ مشرکین نے کئی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ الٰہ بنا رکھے ہیں۔ مشرکین میں سے ایک گروہ کا یہ عقیدہ تھا اور ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اولاد کی حاجت سے مبرّا اور پاک ہے۔1 اولاد کی ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ انسان اپنے سلسلہ نسب کا تسلسل چاہتا ہے۔2 ماں باپ کی فطرت میں یہ کمزوری ہے کہ وہ اولاد چاہتے ہیں تاکہ ماں باپ کی حیثیت سے اولاد سے پیار کرسکیں۔3 اولاد ماں باپ کا بالخصوص بڑھاپے میں سہارا ہوتی ہے۔ 4 ماں اپنی بیٹی اور باپ اپنے بیٹے کی معاونت کا طلب گار ہوتا ہے۔5 اولاد کی پیدائش کے لیے میاں بیوی کے ملاپ کا ہونا لازم ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کمزوریوں اور حاجات سے مبرّا اور پاک ہے۔6 اولاد دوسرے لوگوں سے پیاری ہوتی ہے جس بنا پر ماں، باپ سے اولاد کے بارے میں جانب داری ممکن ہے۔” اللہ“ عادل ہے اس کے بارے میں جانب داری کا تصور کرنا پرلے درجے کا گناہ اور کفر ہے۔ کچھ لوگ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں۔ یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو رب کا بیٹا قرار دیا۔ عیسائیوں نے اس سے آگے بڑھ کر حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا جز قرار دیا۔ کچھ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ عیسیٰ اللہ کا بیٹا اور مریم علیہا السلام اللہ کی بیوی ہے۔ اس طرح انھوں نے تثلیث کا عقیدہ اختیارکیا۔ مسلمانوں نے ایسی لغویات اختیار نہیں کیں لیکن ایک گروہ نے یہ عقیدہ اختیار کر رکھا ہے کہ حضرت محمد (ﷺ) اللہ کے نور کا حصہ ہیں۔ جس کے لیے ” نُوْرٌ مِّنْ نُوْرِ اللّٰہِ“ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے گروہ نے پنجتن پاک کی اصطلاح اور عقیدہ بنا رکھا ہے۔ کتنے ظلم اور بے انصافی کی بات ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے پاس اپنے عقیدہ کی ناصرف کسی آسمانی کتاب اور قرآن مجید میں سے کوئی دلیل موجود نہیں بلکہ ان کے پاس کوئی عقلی دلیل بھی نہیں ہے۔ سب کو چھوڑ کر ہم ان لوگوں کے عقیدہ کی بات کرتے ہیں جو رسول اکرم (ﷺ) کو ” نُوْرٌ مِّنْ نُوْرِ اللّٰہِ“ کہتے ہیں۔ کیا انھیں معلوم نہیں ؟ کہ اللہ تعالیٰ کے نور کی ایک جھلک طور پہاڑ برداشت نہ کرسکا۔ نبی (ﷺ) کے نور کی جھلک آپ (ﷺ) کی والدہ ماجدہ اور صحابہ کرام (رض) کس طرح برداشت کرسکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ عقیدہ عقل و فکر کے خلاف اور پرلے درجے کا شرک ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ان لوگوں کے پاس شرک کی حمایت میں کسی قسم کی دلیل موجود نہیں ہے۔ اس شرک کی تردید اس آیت میں یہ کہہ کر کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس لیے بھی اولاد کی ضرورت نہیں کیونکہ ساری مخلوق ہی اس کی تابع فرمان، ملائکہ، انبیاء (علیہ السلام) اور اولیاء اس کے عاجز اور مکرم بندے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بندے اور ” اللہ“ میں اتنا فرق ہے کہ جس کا ہمارے ذہن اندازہ نہیں لگا سکتے۔ سنگین ترین جرم : ” کہتے ہیں رحمن بیٹا رکھتا ہے ایسا کہنے والو۔ تم بری بات زبان پر لاتے ہو۔ قریب ہے کہ اس جھوٹ سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر پڑیں۔ کہ انہوں نے ” اللہ“ کے لیے بیٹا تجویز کیا۔ حالانکہ ” اللہ“ کی شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔“ ( مریم، آیت : 88تا93) (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () قَال اللّٰہُ تَعَالٰی کَذَّبَنِیْ ابْنُ اٰدَمَ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ وَشَتَمَنِیْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ فَاَمَّا تَکْذِیْبُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ لَنْ یُّعِیْدَنِیْ کَمَا بَدَاَنِیْ وَلَیْسَ اَوّلُ الْخَلْقِ بِاَھْوَنَ عَلَیَّ مِنْ اِعَادَتِہٖ وَاَمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا وَّاَنَا الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ اَلِدْ وَلَمْ اُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لِّیْ کُفُوًا اَحَدٌ وَفِیْ رِوَایَۃٍ: ابْنِ عَبَّاسٍ وَّاَمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ لِیْ وَلَدٌ وَسُبْحَانِیْ اَنْ اَتَّخِذَصَاحِبَۃً اَوْ وَلَدًا) [ رواہ البخاری : باب﴿ وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّہُ وَلَدًا سُبْحَانَہُ﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ذکر کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ یہ اس کے لیے مناسب نہیں۔ وہ میرے بارے میں زبان درازی کرتا ہے یہ اس کے لیے ہرگز جائز نہیں۔ اس کا مجھے جھٹلانا ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کریگا جس طرح اس نے پہلی بار پیدا کیا۔ کیا میرے لیے دوسری دفعہ پیدا کرنا پہلی دفعہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے؟ اس کا میرے بارے میں یہ کہنا بدکلامی ہے کہ اللہ کی اولاد ہے جبکہ میں اکیلا اور بے نیاز ہوں نہ میں نے کسی کو جنم دیا اور نہ مجھے کسی نے جنا ہے اور کوئی بھی میری برابری کرنے والا نہیں۔ بخاری میں حضرت ابن عباس (رض) کے حوالے سے یہ الفاظ پائے جاتے ہیں کہ ابن آدم کی میرے بارے میں بدکلامی یہ ہے کہ میری اولاد ہے جبکہ میں پاک ہوں نہ میری بیوی ہے نہ اولاد۔“ مسائل: 1۔ کچھ لوگوں کا باطل عقیدہ ہے کہ اللہ کی اولاد ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اولاد کی کمزوری سے مبّرا ہے۔ 3۔ ساری مخلوق اللہ کی تابع فرمان ہے، ملائکہ، انبیاء (علیہ السلام) اور اولیاء اس کے بندے یعنی غلام ہیں۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں : 1۔ انہوں نے کہا اللہ نے اولاد بنا رکھی ہے اللہ اولاد سے بے نیاز ہے۔ (یونس :68) 2۔ انہوں نے کہا اللہ نے اولاد بنائی ہے حالانکہ اللہ اولاد سے پاک ہے۔ (البقرۃ:116) 3۔ مشرکین نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے جبکہ اللہ اولاد سے پاک ہے بلکہ سارے اسی کے بندے ہیں۔ (الانبیاء :26)