وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ
اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کرو۔
فہم القرآن : ربط کلام : نبی اکرم (ﷺ) کی بعثت کا مقصد لوگوں کو ” اللہ“ کی الوہیت سے آگاہ کرنا ہے اور یہی پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت اور عقیدہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیائے کرام (علیہ السلام) دنیا میں مبعوث فرمائے ان سب کو یہ حکم تھا کہ وہ لوگوں کو بتلائیں اور سمجھائیں کہ لوگو! تمھارے رب کا فرمان ہے کہ میرے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے۔ اس ارشاد میں رسول اکرم (ﷺ) کو بھی یہی حکم ہے کہ آپ (ﷺ) لوگوں کو بتلائیں اور سمجھائیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور نہ ہی اس کے سوا کوئی حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ جب اس کے سوا کوئی حاجت روا، مشکل کشا اور عبادت کے لائق نہیں تو صرف اس ایک ہی کی عبادت کرنا اور اس ایک کا ہی حکم ماننا چاہیے۔ یہی دعوت پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی تھی اور اسی سے نبی اکرم (ﷺ) نے اپنے کام کا آغاز فرمایا تھا۔ چنانچہ آپ (ﷺ) نے لوگوں کو یہی بات بتلانے اور سمجھانے کی کوشش کی کہ لوگو! لااِلٰہ الا اللہ پڑھو اور اس کے تقاضے پورے کرو۔ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجاؤ گے۔ اسی دعوت کی خاطر آپ (ﷺ) اور آپ کے ساتھیوں نے مکہ میں ہر قسم کے مظالم برداشت کیے اسی کے لیے آپ طائف تشریف لے گئے۔ طائف والوں نے آپ کے ساتھ بدترین سلوک کیا۔ اسی بنیاد پر بدر، احد، خندق، حنین، تبوک اور مکہ کا معرکہ پیش آیا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح یاب فرمایا اور وہ وقت بھی آپہنچا کہ جب آپ نے اعلان فرمایا : (عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) خَرَجَ یَوْمًا فَصَلَّی عَلَی أَہْلِ أُحُدٍ صَلاَتَہُ عَلَی الْمَیِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ إِنِّی فَرَطٌ لَکُمْ وَأَنَا شَہِیدٌ عَلَیْکُمْ وَإِنِّی وَاللَّہِ لأَنْظُرُ إِلَی حَوْضِیَ الآنَ وَإِنِّی قَدْ أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ خَزَائِنِ الأَرْضِ أَوْ مَفَاتِیحَ الأَرْضِ وَإِنِّی وَاللَّہِ مَا أَخَافُ عَلَیْکُمْ أَنْ تُشْرِکُوا بَعْدِی وَلَکِنْ أَخَافُ عَلَیْکُمْ أَنْ تَتَنَافَسُوا فیہَا) [ رواہ البخاری : باب إِثْبَاتِ حَوْضِ نَبِیِّنَا (ﷺ) وَصِفَاتِہِ] ” حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) ایک دن گھر سے باہر نکلے آپ نے احد کے شہداء پر نماز پڑھی جس طرح نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے پھر آپ ممبر کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ نے فرمایا میں تم پر خوش ہوں اور میں تم پر گواہ ہوں اور اللہ کی قسم میں اس وقت حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں عنایت کی گئی ہیں یا فرمایا مجھے زمین کی چابیاں دیں گئی ہیں راوی کو شک ہے۔ اللہ کی قسم میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے لیکن میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم دنیا میں مشغول ہوجاؤ گے۔“ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی فضیلت : (عَنْ عُبَادَۃَ ابْنِ الصَّامِتِ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ مَنْ شَھِدَ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ النَّارَ) [ رواہ مسلم : باب مَنْ لَقِیَ اللَّہَ بالإِیمَانِ وَہُوَ غَیْرُ شَاکٍّ فیہِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَحَرُمَ عَلَی النَّارِ] ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول معظم (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا جس نے توحید ورسالت کی گواہی دی اس پر اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ حرام کردی ہے۔ (عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ (رض) یَقُولُ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) إِنَّ اللَّہَ سَیُخَلِّصُ رَجُلاً مِنْ أُمَّتِی عَلَی رُءُ وسِ الْخَلاَئِقِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیَنْشُرُ عَلَیْہِ تِسْعَۃً وَتِسْعِینَ سِجِلاًّ کُلُّ سِجِلٍّ مِثْلُ مَدِّ الْبَصَرِ ثُمَّ یَقُولُ أَتُنْکِرُ مِنْ ہَذَا شَیْئًا أَظَلَمَکَ کَتَبَتِی الْحَافِظُونَ فَیَقُولُ لاَ یَا رَبِّ فَیَقُولُ أَفَلَکَ عُذْرٌ فَیَقُولُ لاَ یَا رَبِّ فَیَقُولُ بَلَی إِنَّ لَکَ عِنْدَنَا حَسَنَۃً فَإِنَّہُ لاَ ظُلْمَ عَلَیْکَ الْیَوْمَ فَتَخْرُجُ بِطَاقَۃٌ فیہَا أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ فَیَقُولُ احْضُرْ وَزْنَکَ فَیَقُولُ یَا رَبِّ مَا ہَذِہِ الْبِطَاقَۃُ مَعَ ہَذِہِ السِّجِلاَّتِ فَقَالَ إِنَّکَ لاَ تُظْلَمُ قَالَ فَتُوضَعُ السِّجِلاَّتُ فِی کِفَّۃٍ وَالْبِطَاقَۃُ فِی کِفَّۃٍ فَطَاشَتِ السِّجِلاَّتُ وَثَقُلَتِ الْبِطَاقَۃُ فَلاَ یَثْقُلُ مَعَ اسْمِ اللَّہِ شَیْءٌ) [ رواہ سنن ابن ماجہ : باب مَا یُرْجَی مِنْ رَحْمَۃِ اللَّہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ: رواہ احمد : مسند عبداللہ بن عمروبن العاص] ” حضرت عبداللہ عمرو بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن میری امت سے ایک آدمی کو ساری مخلوقات میں سے الگ فرمائیں گے اور اس کے سامنے ننانوے دفتر کھولے جائیں گے اور ہر دفتر حد نگاہ تک پھیلا ہوگا۔ اللہ فرمائیں گے کیا تو ان میں سے کسی ایک کا انکار کرتا ہے یاتجھ پہ لکھنے والے میرے کاتبوں نے ظلم کیا ہے ؟ وہ کہے گا اے میرے پروردگار بالکل نہیں۔ اللہ فرمائیں گے کیا تیرا کوئی عذر ہے وہ کہے گا اے میرے پروردگار ! نہیں۔ اللہ فرمائیں گے ہاں ! ہمارے ہاں تیری ایک نیکی ہے آج کے دن تجھ پر کسی قسم کا ظلم نہیں کیا جائے گا پھر ایک کاغذ نکالا جائے گا جس میں کلمۂ شہادت ثبت ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اس کا وزن کیا جائے وہ کہے گا اتنے بڑے دفتروں کے سامنے اس کاغذ کی کیا حیثیت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تجھ پر ظلم نہیں ہوگا۔ وہ تمام دفتر ایک پلڑے میں رکھ دئیے جائیں گے اور کاغذ کا ٹکڑا دوسرے پلڑے میں رکھا جائے گا۔ گناہوں والا پلڑا اوپر اٹھ جائے گا اور ” لا الٰہ اِلّا اللہ“ والا پلڑا بھاری ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نام سے بڑھ کر کوئی چیز وزنی نہیں ہے۔“ (عَنْ طَارِقِ بْنِ عَبْدُ اللّٰہِ الْمُحَارَبِیُّ قَالَ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) مَرَّ بِسُّوْقِ ذِی الْمَجَازِ وَاَنَا فِیْ بِیَاعَۃٍ لِیْ فَمَرَّ وَعَلِیْہِ حُلَّۃٌ حَمْرَاءُ فَسَمِعْتُہٗ یَقُوْلُ یٰا اَیُّہَا النَّاسُ قُوْلُوْا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تُفْلِحُوْا وَرَجَلٌ یَتْبَعُہٗ یَرْمِیْہِ بالْحِجَارَۃِ قَدْ اَدَمِیْ کَعْبَیْہِ یَعْنِیْ اَبَا لَہَبٍ) [ السنن الکبری للبیہقی] حضرت طارق بن عبداللہ المحاربی بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو ذی المجاز کے بازار سے گزرتے ہوئے دیکھا اور میں بھی خریدو فروخت کرنے کے لیے وہاں پر موجود تھا آپ (ﷺ) نے سرخ رنگ کا حلہ پہنے ہوئے تھے میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا آپ کہہ رہے تھے اے لوگو! لا الہ الا اللہ کہو فلاح پاؤ گے۔ ایک آدمی آپ کو پیچھے سے پتھر مار رہا تھا جس سے آپ کے قدم خون آلود ہوگئے۔ (پتھر مارنے والا ابو لہب تھا) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے رسول مبعوث فرمائے ان کی یہی دعوت تھی کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے۔ 2۔ رسول کریم (ﷺ) بھی لوگوں کو لا اِلٰہ الا اللہ کی دعوت دیتے تھے۔ 3۔ اِلٰہ کا پہلا معنٰی یہ ہے کہ ایسی ہستی جس کے ساتھ غایت درجے کی محبت کرتے ہوئے عاجزی کے ساتھ اس کی عبادت کی جائے۔ وہ ہستی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔ تفسیر بالقرآن: تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت : 1۔ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) نے اللہ کی وحدانیت کی دعوت دی۔ (الانبیاء :25) 2۔ نبی اکرم (ﷺ) کا فرمان اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو مجھے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (ہود :2) 3۔ حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کو فرمایا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو۔ (العنکبوت :16) 4۔ حضرت نوح نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی اور فرمایا کہ شیاطین کی عبادت نہ کرو۔ (المومنون :23) 5۔ حضرت شعیب نے ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا اور اس کے سوا دوسروں کی عبادت سے منع کیا۔ (ہود :84) 6۔ حضرت ھودنے فرمایا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ (ھود :50) 7۔ حضرت صالح نے اپنی قوم کو ایک رب کی عبادت کرنے کا حکم دیا اور دوسروں کی عبادت سے منع کیا۔ (ھود :61) 8۔ حضرت عیسیٰ نے فرمایا بے شک میرا اور تمہارا پروردگار اللہ ہے اسی کی عبادت کرو۔ (مریم :36) 9۔ ہم نے ہر جماعت میں رسول بھیجے انہوں نے لوگوں کو کہا صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی عبادت نہ کرو۔ (النحل :36)