لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ ۗ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا هَلْ هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۖ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ
اس حال میں کہ ان کے دل غافل ہوتے ہیں۔ اور ان لوگوں نے خفیہ سرگوشی کی جنھوں نے ظلم کیا تھا، یہ تم جیسے ایک بشر کے سوا ہے کیا ؟ تو کیا تم جادو کے پاس آتے ہو، حالانکہ تم دیکھ رہے ہو؟
فہم القرآن : (آیت 3 سے 4) ربط کلام : قیامت کے بارے میں لاپرواہی اور حق بات کو شغل کے طور پر لینے کا بنیادی سبب دل کی غفلت ہے۔ انسان کا دل، حق بات کے بارے میں غفلت کا شکار ہوجائے تو مؤثر ترین بات بھی اس پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ یہی حالت سرور دو عالم (ﷺ) کے مخالفین کی تھی۔ جس کا ﴿قَالُوْا قُلُوْا بُنَا غُلْفٌ﴾ کہہ کر برملا اعتراف کرتے تھے۔ (البقرۃ:88) کہ ہمارے دل پر دہ میں ہیں۔ اسی بناء پر انھوں نے اپنی خفیہ مجالس میں پوری راز داری کے ساتھ ایک منظم پراپیگنڈہ کا فیصلہ کیا جس کے پیش نظر وہ لوگوں کو کہتے کہ محمد یوں ہی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے۔ حالانکہ ہمارے جیسا انسان ہے اس میں کوئی خاص خوبی نہیں ہے۔ وہ یہ کہہ کر بھی لوگوں کو متنفر کرتے کہ لوگو! کیا تم جیتے جاگتے اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اس کے جادو میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ جادو کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ جادوگر پیٹ کے دھندے کی خاطر نہ صرف الٹے سیدھے کرتب دکھاتا ہے بلکہ اسے جادو کرنے کے لیے دانستہ طور پر گندا اور ناپاک رہنا پڑتا ہے۔ اس کے بغیر جادوگر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ نبی محترم (ﷺ) میں ایسی کوئی کمزوری موجود نہ تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ آپ کو جادوگر کہتے کیونکہ آپ کی ذات اور دعوت میں اس قدر تاثیر تھی کہ آپ پر ایمان نہ لانے والے لوگ بھی آپ (ﷺ) کی ذات اور بات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ یہی وہ الزام ہے جو پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) پر بھی لگایا جاتا تھا۔ جہاں تک آپ کے بشر ہونے کا تعلق ہے اس بات کا آپ (ﷺ) اور آپ سے پہلے انبیاء (علیہ السلام) برملا اعتراف کرتے تھے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم تمھارے جیسے انسان ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان فرمایا کہ ہمیں اپنے کام کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ (ابراہیم :11) اس اعتراف کے باوجود مخالفین آپ کے بشر ہونے کو بہانہ بنا کر لوگوں کو دین سے دور کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ بے شک آپ بشر تھے لیکن پوری بنی نوع سے اعلیٰ اور افضل تھے، مگر پھر بھی مشرکین مکہ آپ کو جادوگر کے طور پر پیش کرتے تھے۔ جس کا یہ کہہ کر جواب دیا گیا کہ میرا رب نہ صرف زمین پر ہونے والی باتوں کو جانتا ہے بلکہ وہ زمین و آسمان کی ہر بات کو سننے اور جاننے والا ہے۔ جادو کیا ہے ؟ (اَلسِّحْرُ ہُوَ عَقْدٌ وَرُقیً وَکَلَامٌ یُتَکَلَّمُ بِہٖ اَوْ یَکْتُبُہُ اَوْیَعْمَلُ شَیْئًا یُؤَثَّرُ فِیْ بَدَنِ الْمَسْحُوْرِ اَوْ قَلْبِہٖ اَوْ عَقْلِہٖ) [ المغنی ابن قدامہ] ” جادو، دم گرہیں‘ دم اور ایسی تحریر یا حرکات پر مشتمل ہوتا ہے۔ جس کے ذریعے دوسرے کے وجود اور دل و دماغ پر اثر انداز ہوا جاتا ہے۔“ (وَالسِّحْرُہُوَ مُرَکَّبُ مِّنْ تَأْ ثِیْرَاتِ الْاَرْوَاحِ الْخَبِیْثَۃِ وَانْفِعَالِ الْقُوٰی الطَّبِیْعِیَّۃِ عَنْھَا) [ زاد المعاد] ” جادو خبیث جنات کے ذریعے کیا جاتا ہے جس سے لوگوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔“ جادو کوئی مستقل اور مستند علم نہیں کہ جس کو کرنے کے لیے کوئی خاص طریقہ متعین کیا گیا ہو کیونکہ جادو تصنّع بازی کا نام ہے اس لیے ہر دور میں اس کی کرشمہ سازی اور اثر انگیزی میں اضافہ کرنے کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کیے گئے۔ 1۔ کفر یہ، شرکیہ الفاظ کے ہیر پھیر کے ذریعے جادو کرنا۔ 2۔ خبیث جنّات اور شیاطین کے ذریعے کسی پر اثر انداز ہونا۔ 3۔ علم نجوم کے ذریعے غیب کی خبریں دینا اور دوسرے کو متاثر کرنا۔ 4۔ توجہ، مسمریز کی مخصوص حرکات، (ہیپناٹیزم) کیساتھ حواس خمسہ کو قابو کرنا۔ تفصیل کے لیے البقرۃ آیت 103 کی تفسیر دیکھیں۔ مسائل: 1۔ قرآن مجید کی تاثیر سے مرعوب ہو کر کفار اسے جادو قرار دیتے تھے۔ 2۔ کفار آپ (ﷺ) کے خلاف منظم پر اپیگنڈہ کیا کرتے کہ آپ ایک عام انسان اور جادوگر ہیں۔ 3۔ نبی اکرم (ﷺ) نبی نوع کے اعتبار سے انسان تھے مگر پوری کائنات سے اعلیٰ اور افضل ہیں۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے : 1۔ اللہ دلوں کے راز جانتا ہے۔ (ہود :5) 2۔ جوا للہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (البقرہ :216) 3۔ اللہ کا علم فرشتے بھی نہیں جانتے۔ (البقرہ :30) 4۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ (المائدۃ:7) 5۔ اللہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے۔ (المومن :19) 6۔ اللہ خشکی اور تری کی پوشیدہ چیزوں سے واقف ہے۔ (الانعام :59) 7۔ کیا آپ نہیں جانتے اللہ آسمان و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ (الحج :70) 8۔ اللہ تعالیٰ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (النحل :74) 9۔ اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ اللہ تمہارے دلوں میں پرورش پانے والے خیالوں سے بھی واقف ہے۔ (البقرۃ :235)