سورة طه - آیت 133

وَقَالُوا لَوْلَا يَأْتِينَا بِآيَةٍ مِّن رَّبِّهِ ۚ أَوَلَمْ تَأْتِهِم بَيِّنَةُ مَا فِي الصُّحُفِ الْأُولَىٰ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور انھوں نے کہا یہ ہمارے پاس اپنے رب سے کوئی نشانی کیوں نہیں لاتا اور کیا ان کے پاس وہ واضح دلیل نہیں آئی جو پہلی کتابوں میں ہے؟

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : تقویٰ اختیار کرنے والوں کے مقابلے میں دنیا دار لوگوں کی روش اور ان کا انجام۔ کفار کی عادت تھی اور ہے کہ وہ بار بار ایک ہی بات دھراتے جاتے ہیں۔ اسی بری عادت اور نبی اکرم (ﷺ) کو پریشان کرنے کی خاطر کفار وقفے، وقفے کے بعد مطالبہ کرتے کہ اگر آپ واقعی سچے نبی ہیں تو کوئی ایسی دلیل اور معجزہ پیش کریں جس سے ہم مجبور ہوجائیں کہ آپ واقعی ہی نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس کے کئی جواب دیے گئے ہیں۔ لیکن اس موقعہ پر صرف اتنا کہنا ہی کافی سمجھا گیا کہ کیا آپ کی نبوت کے ثبوت تورات، انجیل، زبور میں نہیں پائے جاتے۔ مثال کے طور پر توراۃ اور انجیل کے حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں جہاں حضرت محمد (ﷺ) کی آمد کے متعلق صاف اشارات موجود ہیں : استثناء، باب 18، آیت 15تا 19۔ متی، باب 21، آیت 33تا 46۔ یوحنا، باب، آیت 19تا 21۔ یوحنا، باب 14، آیت 15تا 17و آیت 25تا 30، یوحنا، باب 15، آیت 25تا 26۔ یوحنا، باب 16، آیت 7تا 15۔ مسائل: 1۔ کفار آپ سے نت نئے معجزات طلب کرتے۔ 2۔ آپ کا تذکرہ پہلی کتابوں میں موجود ہے۔ تفسیر بالقرآن: نبی اکرم (ﷺ) کی نبوت کے ثبوت : 1۔ رسول اللہ (ﷺ) پوری دنیا کے رسول ہیں۔ (الاعراف :158) 2۔ رسول اللہ (ﷺ) سب کے رسول ہیں۔ (سباء :28) 3۔ رسول اللہ (ﷺ) مبشر اور نذیر ہیں۔ (الاحزاب :45) 4۔ رسول اللہ (ﷺ) رحمت عالم ہیں۔ (الانبیاء :107) 5۔ رسول اللہ (ﷺ) خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب :40)