وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۖ لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكَ ۗ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ
اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور اس پر خوب پابند رہ، ہم تجھ سے کسی رزق کا مطالبہ نہیں کرتے، ہم ہی تجھے رزق دیں گے اور اچھا انجام تقویٰ کا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : اس سے پہلے نبی اکرم (ﷺ) کو نماز کی تلقین کی گئی اور اس آیت میں آپ (ﷺ) کو ارشاد ہوا کہ اپنے گھر والوں کو بھی نماز پڑھنے کا حکم دیں۔ ہر مسلمان بالخصوص ایک راہنما کے بنیادی فرائض میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اپنی اصلاح کے ساتھ اپنے اہل و عیال کی اصلاح کے لیے بھی کوشش کرتا رہے تاکہ اس کی اور اس کے اہل خانہ کی ذات معاشرے کے لیے ایک مثال ثابت ہو۔ رسول اکرم (ﷺ) کو اپنی امت اور پوری دنیا کے لیے نمونہ کے طور پر مبعوث کیا گیا ہے۔ اس لیے پہلے آپ (ﷺ) کو ارشاد ہوا کہ آپ (ﷺ) پانچ وقت نماز قائم کریں۔ اب حکم ہوا کہ اپنے گھر والوں کو بھی حکم فرمائیں کہ وہ نماز پر قائم رہیں جہاں تک رزق کا معاملہ ہے اللہ تعالیٰ تم سے رزق کا مطالبہ نہیں کرتا۔ بلکہ وہ تمھیں روزی دینے والا ہے۔ بالآخر پرہیزگاری اختیار کرنے والوں کا انجام بہتر ہوگا۔ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مُرُوْا أَوْلَادَکُمْ بالصَّلَاۃِ وَھُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِیْنَ وَاضْرِبُوْھُمْ عَلَیْھَا وَھُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوْا بَیْنَھُمْ فِی الْمَضَاجِعِ) [ رواہ ابوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ] ” حضرت عمر و بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو اور دس سال کی عمر میں انہیں نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے سزا دو۔ اور ان کے بستر الگ کردو۔“ مسائل: 1۔ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دینا چاہیے۔ 2۔ نماز پر ہمیشگی ہونی چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کسی چیز کا محتاج نہیں بلکہ کائنات اس کی محتاج ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی رزق دینے والا نہیں۔