أَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّأُولِي النُّهَىٰ
پھر کیا اس بات نے ان کی رہنمائی نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنے زمانوں کے لوگ ہلاک کردیے، جن کے رہنے کی جگہوں میں یہ چلتے پھرتے ہیں، بے شک اس میں عقلوں والوں کے لیے یقیناً کئی نشانیاں ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 128 سے 129) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے احکام سے انحراف کرنے والوں کو ناصرف آخرت میں عذاب ہوگا بلکہ انھیں دنیا میں بھی کسی نہ کسی صورت عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ مشرکین مکہ کے سامنے جب آخرت کے عذاب اور پہلی قوموں کی تباہی کا ذکر کیا جاتا تو وہ نبی اکرم (ﷺ) کو چیلنج کے انداز میں کہتے کہ جس عذاب سے آپ ہمیں ڈراتے ہیں۔ اس کے آنے میں کیا رکاوٹ ہے ؟ اس پر انہیں سمجھایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح ہر کام کا وقت مقرر کر رکھا ہے اسی طرح ہی مجرم کی گرفت اور عذاب کا وقت متعین کیا ہوا ہے۔ اس میں آگا پیچھا نہیں ہوتا۔ اگر یہ وقت مقرر نہ کیا ہوتا تو ان لوگوں پر اللہ کا غضب نازل ہوچکا ہوتا۔ کیونکہ ان کے اعمال ان لوگوں جیسے ہوچکے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے عذاب نازل کیا تھا۔ کیا ان لوگوں کے لیے یہ دلیل کافی نہیں کہ ان سے پہلے اللہ تعالیٰ نے بہت سی قوموں کو ہلاک کیا۔ جن کے رہنے سہنے کی جگہوں پر یہ چلتے پھرتے ہیں۔ اگر یہ عقل سے کام لیں تو ان کے لیے رہنمائی کے دلائل موجود ہیں۔ ” قَرَنْ“ کی جمع ’ ’ قُرُوْنَ“ ہے۔ ” قَرَنَ“ کے بارے میں اہل علم کے تین خیالات ہیں۔ 1۔ قَرَنْ سے مراد ” ایک سو سال“ 2۔ ” انسانوں کی ایک نسل“ 3۔ کسی قوم کا مخصوص دور۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے ہر کام کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ 2۔ افراد اور قوموں کی تباہی کا وقت بھی متعین ہے۔ 3۔ اگر عقل سے کام لیا جائے انسان کی ہدایت کے لیے تاریخ اور جغرافیہ کے حوالے کافی ہیں۔