قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا
کہے گا اے میرے رب! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا ؟ حالانکہ میں تو دیکھنے والا تھا۔
فہم القرآن : (آیت 125 سے 127) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا کہ میرے ذکر کو نہ بھولنا جس نے اپنے رب کے ذکر اور نصیحت کو بھولا دیا اس کی سزا یہ ہوگی کہ اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھایا جائے گا اور وہ اپنے رب سے ان الفاظ میں فریاد کرے گا۔ جس شخص کو قیامت کے دن اندھا کرکے اٹھایا جائے گا وہ اپنے رب کے حضور التجا کی صورت میں سوال کرے گا کہ میرے رب مجھے آج اندھا کرکے کیوں اٹھایا گیا ہے۔ جبکہ دنیا میں میں سب کچھ دیکھا کرتا تھا۔ رب ذوالجلال کی طرف سے اسے جواب دیا جائے گا کہ یہ سزا تجھے اس لیے دی گئی ہے کیونکہ تو نے ہماری آیات کو بھلا دیا تھا۔ اس لیے آج تمھیں بھی بھلا دیا گیا ہے۔ یہ اس شخص کی سزا ہے جس نے حدود سے تجاوز کیا اور اپنے رب کے احکام کو ماننے سے انکار کردیا۔ آخرت کا عذاب بہت سخت اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ پہلی آیت میں اس شخص کی سزا دنیا کی تنگی کے حوالے سے بیان ہوئی۔ اس کے مقابلے میں یہاں فرمایا کہ دنیا کے مقابلے میں آخرت کی تنگی اذیت ناک عذاب کی صورت میں ہوگی جو ہمیشہ رہنے والا ہوگا۔ دوسرا اس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے یہ بتلایا جائے گا کہ تو اندھا ہونے پر پریشانی کا اظہار کررہا ہے۔ یہ تو تیری پریشانی کی ابتداء ہے۔ اس کے بعد جو تجھے سزا ملنے والی ہے وہ بڑی ہی سخت اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ سے جب فریاد کریں گے تو انھیں یہ کہہ کر ٹھکرا دیا جائے گا کہ آج تمھیں اس طرح ہی فراموش کیا جاتا ہے۔ جس طرح تم نے دنیا میں اپنے رب اور اس کے احکام کو فراموش کیا تھا۔ مسائل: 1۔ اللہ اور اس کے احکام کو فراموش کرنے والے کو قیامت کے دن فراموش کردیا جائے گا۔ 2۔ اللہ کو فراموش کرنے والے کو قیامت کے دن اندھا کرکے اٹھایا جائے گا۔