فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَا آدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَىٰ شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلَىٰ
پس شیطان نے اس کے دل میں خیال ڈالا، کہنے لگا اے آدم ! کیا میں تجھے دائمی زندگی کا درخت اور ایسی بادشاہی بتاؤں جو پرانی نہ ہو؟
فہم القرآن : (آیت 120 سے 121) ربط کلام : شیطان کا حضرت آدم (علیہ السلام) کو پھسلانے میں کامیاب ہونا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا علیہا السلام بڑے آرام و سکون کے ساتھ جنت میں رہ رہے تھے۔ جہاں چاہتے، جو چاہتے، کھاتے پیتے اور ہر جگہ ملائکہ انہیں آداب و سلام پیش کرتے۔ شیطان سے یہ منظر دیکھا نہیں جاتا تھا۔ اس نے اپنے خبث باطن اور ازلی دشمنی کی بنا پر حضرت آدم (علیہ السلام) کو یہ کہہ کر ورغلانا شروع کیا کہ جناب آدم ! بے شک آپ جنت میں عیش و عشرت کے ساتھ رہ رہے ہیں لیکن یہ چار دن کی بات ہے بالآخر تجھے اس سے نکال باہر کیا جائے گا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ کو اس درخت کے متعلق بتلاؤں جسے کھا کر آپ ایسی بادشاہی پائیں گے جسے کبھی زوال نہ ہوگا۔ مگر حضرت آدم (علیہ السلام) شیطان کی باتوں میں آنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ نامعلوم کتنا عرصہ شیطان کس کس انداز کے ساتھ انھیں ورغلانے کی کوشش کرتا رہا۔ بالآخر ایک دن آدم (علیہ السلام) کو یہ کہہ کر ورغلانے میں کامیاب ہوا کہ اے آدم (علیہ السلام) ! مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ میں مخالفت کی بجائے آپ کو اخلاص اور خیر خواہی کے ساتھ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ اس درخت کا پھل کھائیں تاکہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جنت کے وارث بن جائیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) شیطان کی قسموں پر یقین کر بیٹھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو فراموش کردیا جس کی پاداش میں حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا علیہا السلام کا جنتی لباس اتر گیا اور وہ برہنہ ہوگئے۔ جو نہی وہ برہنہ ہوئے جنت کے پتے توڑ کر اپنی شرمگاہوں کو چھپانے لگے۔ جب جنت کے پتوں سے اپنی شرمگاہوں کو ڈھانپتے ہوئے گھبراہٹ کے عالم میں ادھر ادھر بھاگے پھر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں آواز دی کہ اے آدم (علیہ السلام) کیا میں نے تمھیں اس درخت کے قریب جانے سے نہیں روکا تھا ؟ اور کیا میں نے تمھیں نہیں بتلایا تھا کہ شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے ؟ اللہ تعالیٰ کا فرمان سنتے ہی حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا علیہا السلام اپنے رب سے یہ کہہ کر معافی مانگنے لگے : ﴿قَالَ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَاوَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ [ الاعراف :23] کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اگر تو نے ہم کو معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو ہم ہر صورت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ شیطان نے پہلے حضرت حوا علیہا السلام کو ورغلایا تھا اور حضرت حوا علیہا السلامنے حضرت حضرت آدم (علیہ السلام) کو پھسلایا۔ قرآن مجید اس کی تائید کرنے کی بجائے کھلے الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ شیطان نے براہ راست حضرت آدم (علیہ السلام) کو ورغلایا تھا۔ مسائل: 1۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کو شیطان پھسلانے میں کامیاب ہوگیا۔ 2۔ جونہی حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا علیہا السلام نے ممنوعہ درخت کا پھل کھایا تو ان کا لباس اتر گیا۔ 3۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا علیہا السلام شرم کے مارے اپنی شرمگاہوں کو جنت کے پتوں سے ڈھانپنے لگے۔ تفسیر بالقرآن: شیطان انسان کا ابدی دشمن ہے : 1۔ شیطان نے آدم اور حوا کو پھسلا دیا۔ (البقرۃ :36) 2۔ شیطان نے قیدی کو حضرت یوسف کا تذکرہ کرنا بھلا دیا۔ (یوسف :42) 3۔ شیطان نے حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے درمیان اختلاف ڈلوا دیا۔ (یوسف :100) 4۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (یوسف :5) 5۔ شیطان کو اپنا دشمن سمجھ کر اس کی شیطنت سے بچنا چاہیے۔ (فاطر :6)