وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا
اور وہ تجھ سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں تو کہہ دے میرا رب انھیں اڑا کر بکھیر دے گا۔
فہم القرآن : (آیت 105 سے 106) ربط کلام : منکرین قیامت کی غلط فہمی کا ازالہ۔ رسول کریم (ﷺ) نے کفار کے سامنے حشر کی ہولناکیوں کا تذکرہ کیا تو انھوں نے سوال اٹھایا۔ بتائیں کہ پہاڑوں کا لامتناہی سلسلہ اور جن کی بلندیاں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ اتنے بڑے، بڑے پہاڑوں کا کیا بنے گا ؟ جس کا جواب دینے کے لیے آپ (ﷺ) کو ارشاد ہوا کہ آپ انھیں فرمائیں کہ میرا رب انھیں دھول کی طرح اڑا دے گا اور زمین کو اس طرح ہموار اور چٹیل میدان بنائے گا کہ اس میں کوئی نشیب و فراز نہیں دیکھ پاؤ گے۔ قرآن مجید نے یہ حقیقت کئی مقامات پر بیان فرمائی ہے کہ یہ پہاڑ ٹوٹ پھوٹ جائیں گے، اور یہ روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اڑنا شروع کردیں گے۔ (القارعۃ:5) اس دن اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کو بدل ڈالیں گے اور ہر کسی کو اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہوگا۔ ( ابراہیم :48) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پہاڑوں کو ریت کے ذرات بنا کر اڑا دے گا۔ 2۔ زمین چٹیل میدان بنا دی جائے گی۔ 3۔ دیکھنے والا زمین میں کوئی نشیب و فراز نہیں دیکھ پائے گا۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن پہاڑوں کی کیفیّت : 1۔ اس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین چٹیل میدان ہوگی اور ہم تمام لوگوں کو جمع کریں گے اور کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ (الکھف :47) 2۔ اس دن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں گے اور پہاڑ ریت کے ٹیلوں کی طرح ہوجائیں گے۔ (المزمّل :14) 3۔ اس دن آنکھیں چندھیا جائیں گی اور چاند گہنا دیا جائے گا اور سورج چاند کو جمع کردیا جائے گا۔ (القیامۃ: 6تا8) 4۔ جب سورج لپیٹ لیا جائے گا۔ تارے بے نور ہوجائیں گے۔ پہاڑچلائے جائیں گے۔ (التکویر : 1تا3)