حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ
سب نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی اور اللہ کے لیے فرماں بردار ہو کر کھڑے رہو۔
فہم القرآن: (آیت 238 سے 239) ربط کلام : ازواجی مسائل کے بیان کے دوران خصوصی نصیحت۔ سلسلۂ کلام منقطع فرما کر یہاں حفاظت نماز اور خاص کر درمیانی نماز کی حفاظت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلام کے عملی نظام میں نماز ایسی پنجگانہ تربیت ہے کہ اگر کوئی شخص شریعت کی ہدایات کے مطابق نماز ادا کرے اور اس کے تقاضے سمجھنے کی طرف توجہ دے تو نمازی دین اور دنیا کی ذمہ داریوں کے حوالے سے ایک منفرد اور ذمہ دار شخصیت بن جاتا ہے۔ کیونکہ پانچ وقت اس بات کا آرزو مند ہوتا ہے کہ اس کے گناہ معاف کردیے جائیں اور قدم قدم پر اس کی رہنمائی کا اہتمام ہوجائے اور روز محشر اپنے رب کے حضور اس حالت میں پیش ہو کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے والا بندہ شمار ہوسکے۔ گویا کہ مومن بظاہر تو دنیا میں زندگی بسر کر رہا ہے لیکن اعتقادی اور فکری طور پراپنے آپ کو میدان محشر میں اپنے رب کے حضور سمجھتا ہے۔ نماز خود احتسابی کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ حضرت عمر (رض) اپنی حکومت کے اہل کاروں کو فرمایا کرتے تھے کہ میں تمہاری کارکردگی کو نماز کی حفاظت کے آئینہ میں دیکھتا ہوں۔ (سیرت الفاروق) کیونکہ جو شخص نماز کی پابندی اور اسے احسن انداز سے ادا نہیں کرتا وہ اپنی دوسری ذمّہ داریاں پوری کرنے میں بھی کوتاہی کا مرتکب ہوگا۔ انسان کی معاشرتی ذمہ داریوں کی ابتداو انتہا اس کے اہل خانہ کے حوالے سے ہوا کرتی ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) کا ارشاد ہے : (خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِہٖ وَأَنَا خَیْرُکُمْ لِأَھْلِیْ) [ رواہ الترمذی : کتاب المناقب عن رسول اللہ] ” وہی شخص اعلیٰ اخلاق وکردار کا مالک ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ بہتر طریقے سے رہتا ہے اور میں تم سے اپنے گھر والوں کے معاملہ میں بہتر ہوں۔“ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں معاشرتی اور ازدواجی مسائل کے درمیان حفاظت نماز کے حکم کا یہی منشا ہے۔ کہ آدمی اپنی ذمہ داریوں کو پہچانے۔ صلوۃِ وسطیٰ سے مراد اکثر اہل علم کے نزدیک عصر کی نماز ہے۔ کیونکہ نبی محترم (ﷺ) نے غزوۂ خندق کے موقع پر کفار کو ملعون کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اللہ ان کا ستیا ناس کرے کہ انہوں نے آج ہماری نماز وسطیٰ کو بھی مؤخر کرادیا ہے۔ [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب غزوۃ الخندق ] نماز عصر کی اہمیت اور فضیلت اس لیے زیادہ ہے کہ گھر پلٹنے والا مسافر گھر پہنچنے کے لیے تیز گام ہوجاتا ہے۔ دفتر سے رخصت کا وقت دن کا پچھلا پہر ہی ہوا کرتا ہے۔ کاروباری لوگ ذہنی طور پر عصر کے وقت ہی معاملات سمیٹنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ مزدوری کا اختتام اور مالک سے معاوضہ لینے کا بھی یہی وقت ہوتا ہے۔ گویا کہ یہ وقت ہجوم کار کا سنگھم اور ان کی انتہا ہے۔ اس لیے اس نماز کے فوت یا مؤخر ہونے کے زیادہ خدشات ہیں۔ رسول اللہ (ﷺ) فرمایا کرتے تھے کہ جس کی نماز عصر ضائع ہوگئی گویا اس کی تمام دن کی کمائی غارت ہوگئی۔ [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب إثم من فاتتہ العصر] جس طرح مزدوردن کے آخر میں معاوضے کا طلب گار ہوتا ہے یہی صورت نمازی کی ہے کہ اس وقت ملائکہ اللہ تعالیٰ کے حضور آدمی کے سارے دن کی رپورٹ پیش کرتے ہیں۔ گویا کہ جس کی نماز عصر ضائع ہوئی وہ اس دن اللہ تعالیٰ سے اجر لینے میں محروم رہے گا۔ نماز کی ادائیگی کے بارے میں یہ حکم دیا ہے کہ نہایت خاموشی اور عاجزی کے ساتھ اللہ کے حضور کھڑا ہواجائے۔ نماز میں بے جاحرکت نہیں کرنا چاہیے نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا : (اُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلٰی سَبْعَۃٍ لَاأَکُفُّ شَعْرًا وَلَا ثَوْبًا)[ رواہ البخاری : کتاب الاذان] ” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات اعضاء پر سجدہ کروں اور بالوں اور کپڑوں کو نہ لپیٹوں۔“ یہاں نماز خوف کا طریقہ بھی بتلایا ہے کہ اگر انتہائی خطر ناک اور ہنگامی حالات ہوں تو سواری پر نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ البتہ امن کی حالت میں پہلے طریقے پر ہی نماز ادا کی جائے گی۔ نماز خوف کے ہنگامی حالات کے مطابق کئی طریقے احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں جن کی تفصیل إن شاء اللہ سورۃ المائدۃ میں آئے گی۔ حالت جنگ میں اللہ تعالیٰ کو زیادہ سے زیادہ یاد کرنا چاہیے۔ ﴿فاذْکُرُوا اللّٰہ﴾ سے مراد نماز کے بعد کے اذکار ہو سکتے ہیں نماز اسی طرح پڑھو اور قائم کرو جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کی تعلیم دی ہے۔[ تفسیرابن کثیر] مسائل : 1۔ نمازوں کی حفاظت کرنا چاہیے بالخصوص عصر کی نماز کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔ 2۔ نماز میں عاجزی کے ساتھ کھڑا ہونا اور بلا وجہ حرکات نہیں کرنا چاہیے۔ 3۔ نماز کے بعد اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: فرضیت نماز: 1۔ نماز قائم کرو، زکوۃادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (البقرۃ: 43) 2۔ مؤمنین پر نماز مقررہ وقت پر فرض کی گئی ہے۔ (النساء: 103) 3۔ نماز قائم کرو اور مشرک نہ بنو۔ (الروم: 31)