فَرَجَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا ۚ أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ أَمْ أَرَدتُّمْ أَن يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُم مَّوْعِدِي
تو موسیٰ اپنی قوم کی طرف پلٹا غصے سے بھرا ہوا، افسوس کرتا ہوا، کہا اے میری قوم! کیا تمھارے رب نے تمھیں اچھا وعدہ نہ دیا تھا؟ پھر کیا وہ مدت تم پر لمبی ہوگئی، یا تم نے چاہا کہ تم پر تمھارے رب کی طرف سے کوئی غضب اترے؟ تو تم نے میرے وعدے کی خلاف ورزی کی۔
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی اطلاع پا کر کہ قوم گمراہ ہوچکی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا فوری طور پر اپنی قوم کی طرف پلٹنا۔ مدّت پوری ہوتے ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فی الفور اپنی قوم کی طرف آئے اور غضب ناک ہو کر پے درپے ان سے تین سوال کیے۔ کیا تمھارے رب نے تمھاری ہدایت اور بھلائی کے لیے مجھے تورات دینے کے لیے طور پہاڑ پر نہیں بلایا تھا اور میں تمھیں بتلا کر نہیں گیا تھا؟ کیا میرے جانے کی مدت بہت طویل ہوگئی تھی ؟ یا پھر تم نے دانستہ طور پر چاہا کہ تم پر اللہ کا غضب نازل ہو؟ بہر حال تم نے میرے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے۔ گمراہ ہونے والے لوگوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا کلمہ پڑھا تھا۔ کلمہ کا معنی ہی یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اس وقت کے مطابق موسیٰ اللہ کے رسول تھے۔ رسول کا معنی ہے جس کی پوری یکسوئی کے ساتھ تابعداری کی جائے۔ اس کے باوجود بنی اسرائیل کی غالب اکثریت نے موسیٰ (علیہ السلام) کی صرف چالیس دن کی غیر حاضری پر اس عہد کو توڑ دیا حالانکہ ان کی رہنمائی کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو چھوڑ گئے تھے۔ جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معاون اور نبی تھے۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی سرتوڑ کوشش کے باوجود یہ لوگ گمراہ ہوگئے۔ مسائل: 1۔ بنی اسرائیل بہت ہی تھوڑی مدت میں گمراہ ہوگئے۔ 2۔ بنی اسرائیل نہایت احسان فراموش اور جلد بازقوم ہے۔