إِنَّهُ مَن يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَىٰ
بے شک حقیقت یہ ہے کہ جو اپنے رب کے پاس مجرم بن کر آئے گا تو یقیناً اسی کے لیے جہنم ہے، نہ وہ اس میں مرے گا اور نہ جیے گا۔
فہم القرآن : (آیت 74 سے 76) ربط کلام : جس طرح ذات کبریا نے باقی رہنا ہے اسی طرح ہی اس کے فیصلے باقی رہیں گے۔ ایمان لانے والے حضرات فرعون کے سامنے یہ کہہ کر ڈٹ گئے کہ تیری سزائیں صرف دنیا تک ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور اجر عطا فرمانے میں سب سے بہتر اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ ایمانداروں کی اس گفتگو کو قرآن مجید حسب دستور نصیحت کے طور پر یوں بیان کرتا ہے۔ جو شخص اپنے رب کی بارگاہ میں مجرم بن کر پیش ہوا۔ اس کے لیے جہنم ہے جس میں نہ موت ہوگی اور نہ ہی زندگی گویا کہ وہ موت و حیات کی کشمکش میں رہے گا۔ جو خوش نصیب سچے ایمان اور پاکیزہ کردار کے ساتھ اپنے رب کے حضور حاضر ہوا اس کے لیے اعلیٰ درجات اور ہمیشہ ہمیش رہنے والے باغات ہیں، جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جنتی لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اس شخص کا صلہ ہے جس نے اپنے آپ کو کفر و شرک اور برے کاموں سے بچائے رکھا۔ ” عبد اللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا‘ جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے تو موت کو (مینڈھے کی شکل میں) لایا جائے گا‘ یہاں تک کہ اسے جنت اور دوزخ کے درمیان لٹا کر ذبح کردیا جائے گا۔ اس کے بعد منادی کرنیوالا اعلان کرے گا‘ اے جنت والو ! اب موت نہیں آئے گی اے دوزخ والو! اب تمہیں بھی موت نہیں ہے اس اعلان سے اہل جنت کی خوشیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ اور اہل دوزخ کے غموں میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔“ [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے سے بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم کی جیل میں لے جایا جائے گا ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔“ [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں پہلا گروہ جنت میں چودھویں رات کے چاند کی صورت میں داخل ہوگا ان کے بعد کے لوگ آسمان میں چمکدار اور حسین ستارے کی مانند ہوں گے ان کے دل ایک ہی آدمی کے دل کی طرح ہوں گے ان کے درمیان نہ کوئی بغض ہوگا اور نہ ہی حسد۔ جنتی کے لیے حور العین میں سے دو بیویاں ہوں گی جن کی ہڈیوں کا گودا، گوشت اور ہڈیوں کے درمیان سے نظر آئے گا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھامخلوقۃ] مسائل: 1۔ کافر اور مشرک ہمیشہ جہنم میں موت و حیات کی کشمکش میں رہیں گے۔ 2۔ مومنوں کے لیے اپنے رب کے ہاں اعلیٰ درجات ہوں گے۔ 3۔ مومن جنت میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن: جہنمیوں کا بدترین انجام : 1۔ اس دن ہم ان کا مال جہنم کی آگ میں گرم کریں گے اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں، کروٹوں اور پیٹھوں کو داغا جاۓ گا۔ (التوبہ :35) 2۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب وہ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مزید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل :97) 3۔ تھور کا درخت گنہگاروں کا کھانا ہوگا۔ (الدخان :43) 4۔ اس میں وہ کھولتا ہوا پانی پیئیں گے اور اس طرح پیئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پیتا ہے۔ (الواقعہ : 54تا55) 5۔ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کی ہے جو انہیں گھیرے ہوئے ہوگی اور انہیں پانی کی جگہ پگھلا ہو اتانبا دیا جائے گا جو ان کے چہروں کو جلا دے گا۔ (الکھف :29)