قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَىٰ
فرمایا بے شک تجھے تیرا سوال عطا کردیا گیا اے موسیٰ !
فہم القرآن: (آیت 36 سے 41) ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دونوں دعائیں قبول ہونے کا اعلان اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے دونوں مطالبے منظور کرلیے جس کے صلہ میں ان کی زبان کی گرہ کھل گئی اور وہ پیغمبرانہ شان کے ساتھ کلام اور خطاب کرنے لگے۔ اس کے ساتھ ان کے بھائی حضرت ہارون کو نبوت کے منصب سے سرفراز کیا گیا جو ہر کام میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیروی اور تائید کرتے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے دونوں سوال پورے کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ ہم نے یہ دوسری مرتبہ تجھ پر احسان فرمایا ہے پہلا احسان یہ تھا کہ جب تیری والدہ کو ہم نے الہام کیا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کی جان کا خطرہ محسوس ہو تو اسے صندوق میں ڈال کر دریا کے حوالے کر دے تاکہ اسے میرا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا دشمن پکڑ لے دشمن سے مراد فرعون ہے جو سرکشی اور بغاوت کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ یہ پہلا شخص تھا جس نے اپنے آپ کو ﴿اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی﴾ سمجھا اور لوگوں سے کہلوایا اور اس نے محض نجومیوں کے کہنے پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وجہ سے بنی اسرائیل کے ہزاروں بچوں کو قتل کروا دیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ہاتھوں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پرورش کروائی۔ موسیٰ (علیہ السلام) ناصرف فرعون کے گھر پر ورش پاتے ہیں بلکہ ان کی والدہ ہی ان کی داعیہ اور مربیہ ٹھہرتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں صندوق دریا کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے اُمِّ موسیٰ فکر نہ کرنا ہم اسے تیرے پاس لے آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم جان کر اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا کے حوالے کردیا۔ لیکن جب ماں کی مامتا تڑپ اٹھی تو ماں نے اپنی بیٹی یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن کو بھیجا کہ بیٹی دریا کے کنارے کنارے جاؤ اور دیکھو تیرے بھائی کا صندوق کہاں پہنچتا ہے اور اسے کون پکڑتا ہے۔ دریا کی لہریں موسیٰ (علیہ السلام) کو لوریاں دیتے ہوئے فرعون کے محل تک پہنچا دیتی ہیں۔ دریا میں اٹکیلیاں کھاتا ہوا صندوق دیکھ کر فرعون کے خدام نے اسے پکڑلیا۔ جب صندوق کھولا تو اس میں موسیٰ (علیہ السلام) اپنے معصوم اور پر نور چہرے کے ساتھ مسکراتے ہوئے پائے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر اپنی رحمت کا پرتو اس طرح ڈال رکھا تھا کہ جو بھی انھیں دیکھتا فریفتہ ہوجاتا۔ یہی حالت فرعون اور اس کی بیوی آسیہ کی تھی۔ جو نہی فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے چہرے پر نظر ڈالی تو دل ہار بیٹھا۔ اسے یہ احساس اور خیال تک نہ رہا کہ اس طرح دریا میں تیرتا ہوا۔ جو بچہ میں نے پکڑا ہے ہوسکتا ہے کہ یہ وہی بچہ ہو جس کی وجہ سے میں نے ہزاروں بچوں کو قتل کیا ہے۔ وہ ایسا کیوں نہ سوچ سکا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے موسیٰ میں نے تجھ پر اپنی محبت ڈال دی تاکہ تو میری آنکھوں کے سامنے پرورش پائے۔ حضرت موسیٰ کی والدہ کے بارے میں نبی اکرم (ﷺ) کا ارشاد : (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَثَلُ الَّذِیْنِ یَغْزُوْنَ مَنْ اُمَّتِیْ وَیَأْخُذُوْنَ الْجُعْلَ یَتَقَوَّوْنَ عَلٰی عَدُوِّہِمْ مِثْلَ اُمِّ مُوْسٰی تُرْضِعُ وَلَدَہَا وَتَاأخُذُ اَجَرَہَا ) [ سنن الکبری للبیہقی] ” حضرت عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا میری امت کے غازیوں کی مثال جو مال غنیمت لیتے ہیں اور اپنے دشمن پہ جھپٹتے ہیں موسیٰ کی ماں کی طرح ہے جس نے اپنے بچے کو دودھ پلایا اور اجرت حاصل کی۔“ موسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کا دوسرا احسان عظیم : بیسویں پارہ میں ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب بڑے ہوئے تو ایک دن دوپہر کے وقت انھوں نے دو آدمیوں کو باہم جھگڑتے ہوئے پایا جن میں ایک کا تعلق موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم سے تھا اور دوسرا موسیٰ (علیہ السلام) کے دشمن فرعون کی قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی نے اپنے دشمن کے مقابلے میں ان سے مدد چاہی موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے دشمن کو پیچھے دھکیلنے کے لیے دھکا دیا تو اس کے ساتھ ہی اس کی جان نکل گئی۔ اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے انتہائی افسوس اور غم کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا یہ تو شیطان کی طرف سے ایسا ہوا ہے۔ بلاشبہ شیطان انسان کا کھلا دشمن اور گمراہ کرنے والا ہے۔ اس کے ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے میرے رب میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے تو مجھے معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو معاف کردیا کیونکہ وہ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عرض کی اے اللہ تو نے مجھ پر بہت کرم فرمایا ہے۔ آئندہ میں کسی مجرم کی مدد نہیں کروں گا۔ (القصص : 14تا17) اسی واقعہ کو یہاں مختصریوں بیان فرمایا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) تجھ پر اللہ تعالیٰ نے اس وقت بھی احسان فرمایا جب تو نے ایک شخص کو قتل کیا تھا ہم نے تجھے اس کے ساتھ اچھی طرح آزمایا اور نجات دی پھر تو کئی سال تک مدین میں ٹھہرا رہا پھر ہم اپنے فیصلہ کے مطابق تجھے بروقت مصرلے آئے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اپنی محبت ڈال دی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی والدہ کے ہاں لوٹا دیا۔ 3۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آٹھ سے دس سال تک مدین میں قیام پذیر رہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے لیے منتخب فرمالیا۔