وَاجْعَل لِّي وَزِيرًا مِّنْ أَهْلِي
اور میرے لیے میرے گھر والوں میں سے ایک بوجھ بٹانے والا بنادے۔
فہم القرآن: (آیت 29 سے 35) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اپنے رب کے حضور دوسری التجا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے رب کے حضور یہ التجا بھی کی کہ میرے رب میرے اہل میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا دیجیے میرے بھائی کے ساتھ میری کمر کو مضبوط کیجئے اور اسے میرے کام میں شریک بنا دیں تاکہ ہم کثرت کے ساتھ تیری حمد اور ذکر کریں بلاشبہ تو ہمیں اچھی طرح دیکھنے والا ہے۔ حضرت ہارون موسیٰ (علیہ السلام) سے تقریباً تین سال بڑے تھے فرعون کے مظالم اور حالات کی سنگینی کے باعث حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے پشتی بانی اور کام میں وسعت پیدا کرنے کے لیے اپنے رب کے حضور یہ دعا کی کہ میرے رب میرے بھائی کو میرے کام میں شریک بنا دے تاکہ ہم تیری حمد، اور ذکر زیادہ سے زیادہ کرسکیں تو ہر حال میں ہمیں دیکھنے والا ہے۔ حمد سے مراد زبانی اور جسمانی طور پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف اور اس کا شکر ادا کرنا ہے ذکر سے مراد اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا، نصیحت حاصل کرنا اور اللہ کی توحید بیان کرنا ہے ذکر کی وسعت کا ذکر کرتے ہوئے نبی اکرم (ﷺ) نے یوں ارشاد فرمایا : رمی اور طواف بھی اللہ کے ذکر کے لیے : (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِ (ﷺ) قَالَ إِنَّمَاجُعِلَ رَمْیُ الْجِمَارِ وَالسَّعْیُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ لإِقَامَۃِ ذِکْرِ اللَّہِ قَالَ أَبُو عیسَی وَہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ)[ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ کَیْفَ تُرْمَی الْجِمَارُ] ” حضرت عائشہ (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتی ہیں آپ نے فرمایا رمی جمار اور صفامروہ کی سعی کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے مقرر کیا گیا۔“ (عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَثَلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِیْ لَا یَذْکُرُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ) [ رواہ البخاری : باب فَضْلِ ذِکْرِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ اپنے رب کا ذکر کرنے والے کی مثال زندہ اور نہ کرنے والے کی مثال مردہ شخص کی سی ہے۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) یَذْکُرُ اللَّہَ عَلَی کُلِّ أَحْیَانِہِ) [ رواہ مسلم : باب ذِکْرِ اللَّہِ تَعَالَی فِی حَالِ الْجَنَابَۃِ وَغَیْرِہَا] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (ﷺ) ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے تھے۔“ (اَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِ کَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) [ رواہ ابوداوٗد : کتاب الصلاۃ] ” الٰہی! اپنے ذکر، شکر اور اچھی طرح عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ مسائل: 1۔ نیکی کے کام میں ایک دوسرے کی پشتی بانی کرنا چاہیے۔ 2۔ دین کا داعی اپنے ساتھیوں کے ساتھ تقویّت محسوس کرتا ہے۔ 3۔ توحید کا پرچار کرنا سب سے بڑا ذکر ہے۔ 4۔ آدمی کو ہر حال اللہ کی حمد و ثنا اور اس کا ذکر کرنا چاہیے۔ 5۔ آدمی کسی حالت میں بھی ہو اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: ذکر کے معانی، اس کا حکم اور فضیلت : 1۔ اللہ کا ذکر صبح اور شام کثرت سے کرو۔ (آل عمران :41) 2۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد زمین میں نکل جاؤ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ (الجمعۃ:10) 3۔ ایام تشریق میں اللہ کو زیادہ یاد کرو۔ (البقرۃ:203) 4۔ جب حج کے مناسک ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو۔ (البقرۃ:200) 5۔ جنگ کے دوران۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (الانفال :45) 6۔ اے ایمان والو ! اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ (الاحزاب :41) 7۔ جب نماز ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو۔ (النساء :103) 8۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والوں کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔ (الاحزاب :35) 9۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے کامیاب ہونگے۔ ( الجمعہ 10)