فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
پھر اگر وہ اسے (تیسری) طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہیں ہوگی، یہاں تک کہ اس کے علاوہ کسی اور خاوند سے نکاح کرے، پھر اگر وہ اسے طلاق دے دے تو (پہلے) دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ دونوں آپس میں رجوع کرلیں، اگر سمجھیں کہ اللہ کی حدیں قائم رکھیں گے، اور یہ اللہ کی حدیں ہیں، وہ انھیں ان لوگوں کے لیے کھول کر بیان کرتا ہے جو جانتے ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اگر میاں بیوی کے درمیان اکٹھا رہنے کی کوئی شکل باقی نہ رہے اور عورت کو تیسری بار طلاق بھی دے دی جائے تو پھر وہ آپس میں رجوع نہیں کرسکتے کیونکہ ایسی طلاق کو طلاق مغلظہ کہتے ہیں۔ اب ان کامیاں بیوی بن کر رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ سوائے اس کے کہ یہ عورت کسی دوسرے کے ساتھ نکاح کرے اور اس نکاح میں یہ شرط ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ میں اتنی مدت کے بعد تجھ سے طلاق حاصل کروں گی یا اس کا بننے والا خاوند اس ارادے کے ساتھ نکاح کرے کہ میں مجامعت کرنے کے بعد اسے طلاق دے دوں گا۔ ایسے ملاپ اور نکاح کو حدیث میں حلالہ کہا گیا ہے اور حلالہ کرنے اور کروانے والے پر رسول معظم (ﷺ) نے لعنت کی ہے۔ [ رواہ أبوداوٗد : کتاب النکاح، باب فی التحلیل] اس طرح کا نکاح زنا کے زمرے میں آتا ہے اور اس انداز سے دی ہوئی طلاق پہلے خاوند کے ساتھ نکاح کرنے کا جواز پید انہیں کرسکتی۔ قرآن مجید کے نقطۂ نگاہ سے تین طلاقیں ہوجانے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح اس صورت میں جائز ہوگا جب یہ خاوند کسی جبر اور پیشگی طے شدہ بات یا نیت کے بغیر صرف باہمی نباہ نہ ہونے کی صورت میں طلاق دے پھر اس عورت کا پہلے خاوند کے ساتھ اس شر ط کے ساتھ نکاح ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں خلوص نیت کے ساتھ یہ عہد کریں کہ آئندہ وہ اللہ تعالیٰ کی متعین کردہ حدود کا پوری طرح احترام کریں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنی حدود کو اس لیے واضح اور کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ لوگ ان کا احترام کریں۔ مسائل : 1۔ طلاق مغلظہ کے بعد نکاح نہیں ہوسکتا۔ 2۔ دوسرا خاوند بلا شرط نکاح اور طلاق دے تو پہلے خاوند سے نکاح ہوسکتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اپنی حدود اس لیے بیان کرتا ہے تاکہ لوگ سمجھ جائیں اور ان کا احترام کریں۔