وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَىٰ
اور کیا تیرے پاس موسیٰ کی خبر پہنچی ہے۔
فہم القرآن: (آیت 9 سے14) ربط کلام : اے نبی (ﷺ) آپ جس ایک اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دیتے ہیں یہی دعوت موسیٰ (علیہ السلام) دیا کرتے تھے۔ اس لیے آپ کو ان کے حالات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ رسول محترم (ﷺ) کو پوری طرح متوجہ فرمانے کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے کہ کیا آپ کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) کی خبر نہیں پہنچی ؟ لو اب سماعت فرمائیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے آگ دیکھی تو اپنے گھر والوں سے فرمایا ٹھہریں میں آپ کے تاپنے کے لیے آگ کا انگارہ لاتا ہوں یا پھر اس روشنی سے راستے کا پتہ معلوم کرتا ہوں۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) آگ کے قریب آئے تو انھیں آواز دی گئی۔ اے موسیٰ میں آپ کا رب ہوں آپ مقدس وادی میں پہنچ چکے ہیں۔ اس لیے اپنے جوتے اتار دیں، یہ بات پہلے معلوم ہونا چاہیے کہ بے مثال جدوجہد اور لوگوں کی مخالفت کے لحاظ سے نبی اکرم (ﷺ) سب سے زیادہ موسیٰ (علیہ السلام) کے قریب ہیں اس لیے قرآن مجید میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جدوجہد اور فرعون کی مخالفت کا تفصیلی بیان ہوا ہے۔ یہاں اس بات کا جوں آغاز فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی خبر آپ کو نہیں پہنچی ؟ شاید اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اے نبی (ﷺ) آپ تو مکہ میں محترم اور قابل اعتماد ہیں تبھی تو لوگ آپ کو صادق اور امین کہتے ہیں تھوڑے ہی سہی لیکن آپ کے جانثار ساتھی بھی موجود ہیں۔ لہٰذا آپ کو تودل چھوٹا اور آپ کے ساتھیوں کو حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات جانیں کہ کن حالات میں پیدا ہوئے۔ اس کی والدہ نے اپنے رب کے حکم پر عمل کرتے ہوئے کس دل گردے کے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا کی لہروں کے سپرد کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس کے جانی دشمن فرعون کے گھر پالا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) بڑے ہوئے تو ان کے ہاتھوں غیرارادی طور پر ایک شخص قتل ہوا۔ موسیٰ (علیہ السلام) خوف کے مارے مدین کی طرف بھاگ گئے۔ وہاں آٹھ، دس سال رہنے کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ اپنے وطن مصر واپس آرہے تھے کہ انھوں نے آگ جلتی ہوئی دیکھی۔ راستہ معلوم کرنے اور سردی کی وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) آگ کی طرف گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آوازدی کہ آپ مقدس زمین پر پہنچ گئے ہیں۔ لہٰذا جوتے اتار دیں اور جو کچھ آپ کی طرف نازل کیا جاتا ہے اسے توجہ سے سنیں۔ اس خوف اور کسمپرسی کے عالم میں موسیٰ (علیہ السلام) مصرواپس پہنچ کر اپنے کام کا آغاز کرتے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں اپنے حالات پر غور فرمائیں کہ وہ کتنے آسان اور سازگار ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بحکم خداوندی جوتا اتار کر وادئ مقدس میں آگے بڑھے تو آواز آئی اے موسیٰ (علیہ السلام) ! میں نے تجھے اپنی ذات اور کام کے لیے پسند کرلیا ہے۔ جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے اسے پوری توجہ کے ساتھ سنو۔ یقین کرو کہ میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بس میری ہی عبادت کرنا اور مجھے یاد رکھنے کے لے نماز ادا کرتے رہنا۔ بیسویں پارہ میں اس واقعہ کی یوں تفصیل بیان ہوئی ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام)، حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس معاہدہ کے تحت اپنی مدت پوری کرچکے تو وہ اپنی اہلیہ کو لے کر اپنے وطن مصر کی طرف چل پڑے۔ راستہ میں موسیٰ (علیہ السلام) نے طور پہاڑ کے دائیں جانب ایک روشنی دیکھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی اہلیہ کو فرمایا آپ یہاں ٹھہریں میں اس روشنی کے پاس جا کر آپ کے تانپنے کے لیے آگ لاتاہوں یا راستہ کے بارے میں معلومات لاؤں گا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) طور پہاڑ کے قریب اس کے دائیں جانب پہنچے تو ایک درخت تجلیات اور اللہ کی برکات کا مرکز بنا ہوا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے آواز سنی جس میں یہ پیغام تھا کہ میں ہی رب العالمین ہوں۔ ﴿فَلَمَّا قَضٰی مُوْسَی الْاَجَلَ وَ سَارَ بِاَھْلِہٖٓ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا قَالَ لِاَھْلِہِ امْکُثُوْٓا اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْٓ اٰتِیْکُمْ مِنْھَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَۃٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُوْنَ فَلَمَّآ اَتٰھَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَۃِ الْمُبٰرَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ اَنْ یّٰمُوْسٰٓی اِنِّیْٓ اَنَا اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْن﴾ [ القصص : 29، 30] ” پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) نے مقرر مدت پوری کردی اور وہاں سے اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر چلے تو طور کے ایک جانب آگ دیکھی موسیٰ نے اپنے اہل خانہ سے کہا تم ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے میں وہاں جاتا ہوں شاید میں تمہارے پاس وہاں سے کوئی خبریا آگ کی کوئی چنگاری لاؤں تاکہ تم اسے تاپ سکو۔ جب موسیٰ وہاں گئے تو وادی کے دائیں کنارہ سے اس بابرکت مقام میں ایک درخت سے آواز آئی کہ اے موسیٰ ! بلاشبہ میں ہی اللہ رب العالمین ہوں۔“ یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ ارشاد ہوا کہ میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ” اِلٰہ“ کے بارے میں کئی مرتبہ بیان ہوچکا ہے۔ اس موقعہ پر مختصر مفہوم جاننے کے لیے درج ذیل تفسیربالقرآن ملاحظہ فرمائیں۔ یاد رہے کہ عقیدۂ توحید کے بعد انسان پر جو سب سے پہلا فرض عائد ہوتا ہے وہ پانچ وقت کی نماز ہے۔ یہ ایسی عبادت اور ذکر ہے جس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو کوئی عبادت اور ذکر محبوب نہیں۔ (عن عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ قَال الصَّلاَۃُ عَلَی وَقْتِہَاقَالَ ثُمَّ أَیُّ قَالَ ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قَالَ ثُمَّ أَیُّ قَالَ الْجِہَادُ فِی سَبِیل اللّٰہِ) [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلوٰۃ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں میں نے رسول اکرم (ﷺ) سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا : نماز وقت پر ادا کرنا۔ پھر پوچھا تو فرمایا : والدین کے ساتھ اچھاسلوک کرنا۔ اس کے بعد پوچھنے پر آپ نے فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔“ تفسیر بالقرآن: اِلٰہ کے چیدہ چیدہ مرکزی معانی : 1۔ تمہارا الٰہ ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ رحمن ورحیم ہے (البقرۃ۔163) 2۔ یقیناً اللہ ایک ہی الٰہ ہے وہ اولاد سے پاک ہے آسمان و زمین کی ہر چیز اسی کے لیے ہے (النساء۔171) 3۔ اسکے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہ اکیلا ہی ہے ( المائدۃ:73) 4۔ فرما دیجیے کہ اللہ ایک ہی الٰہ ہے اور میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام :19) 5۔ اللہ نے فرمایا دو الٰہ نہ بناؤ یقیناً الٰہ ایک ہی ہے۔ (النحل :51)