ه
طٰہٰ۔
فہم القرآن: (آیت 1 سے 3) سورۃ طٰہٰ مکہ معظمہ میں اس وقت نازل ہوئی جب کفار مکہ کا جور و استبداد اپنے عروج پر تھا۔ مسلمانوں کے حوصلے پست ہونے کے قریب تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش کا قدرے تفصیل سے تذکرہ فرمایا ہے تاکہ مسلمانوں کو معلوم ہو کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی کن مشکلات میں دین کا کام کرتے رہے۔ لفظ طٰہٰ بھی حروف مقطعات ہیں۔ حسب عادت کچھ اہل علم نے اس کے بھی مفہوم نقل کیے ہیں۔ جو علمی موشگافیوں کے سوا کچھ نہیں کیونکہ بالآخر وہ بھی ثقہ اہل علم کی طرح یہ لکھنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ اس کا حقیقی مفہوم صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ نبی کریم (ﷺ) مشکل اور سخت ترین حالات میں پوری جان سوزی اور اخلاص کے ساتھ تبلیغ دین کا فریضہ ادا فرما رہے تھے۔ آپ رات کی تاریکیوں میں تہجد کی نماز میں لوگوں کی ہدایت کے لیے رو رو کر دعائیں کرتے۔ دن کے وقت تندہی کے ساتھ اصلاح احوال کی کوشش میں مصروف رہتے۔ لیکن مشرکین ناصرف دن بدن کفر و شرک میں آگے ہی بڑھے جا رہے تھے بلکہ آپ (ﷺ) اور صحابہ کرام (رض) پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے تھے۔ جس پر آپ کا دل پسیج جاتا اور آپ غمگین رہتے۔ اس صورت حال میں یہ سورۃ مبارکہ نازل ہوئی۔ جس کی ابتدا میں آپ کو تسلّی دیتے ہوئے ارشاد ہوا کہ اے پیارے نبی (ﷺ) آپ کے رب نے قرآن مجید اس لیے تو نہیں اتارا کہ آپ اپنی استعداد سے بڑھ کر مشقت میں پڑجائیں۔ دوسرے مقام پر فرمایا کہ اگر یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے تو آپ اپنی جان کو ہلاک کرلیں گے۔ الشعراء آیت : 3بے شک قرآن مجید سراپا نصیحت ہے۔ یقین رکھو قرآن مسائل: بڑھانے نہیں کم کرنے کے لیے نازل ہوا ہے۔ لیکن اس سے نعمت سے وہی شخص مستفید ہوتا ہے جو اپنے رب کا خوف اور برے انجام سے ڈر نے والا ہے۔ یہی بات قرآن مجید کی پہلی آیت میں کہی گئی ہے۔ یہ کتاب ہدایت ہے۔ مگر ان لوگوں کے لیے جو گناہوں سے بچنے اور اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں۔