فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنذِرَ بِهِ قَوْمًا لُّدًّا
سو اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم نے اسے تیری زبان میں آسان کردیا ہے، تاکہ تو اس کے ساتھ متقی لوگوں کو خوشخبری دے اور اس کے ساتھ ان لوگوں کو ڈرائے جو سخت جھگڑالو ہیں۔
فہم القرآن: (آیت 97 سے 98) ربط کلام : نزول قرآن کا مقصد، متقین کو خوشخبری سنانا اور مجرمین کو ان کے انجام سے آگاہ کرنا ہے۔ قرآن مجید میں بار ہا دفعہ رسول اکرم (ﷺ) کی بعثت کا مقصد بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ یہی قرآن مجید کی دعوت اور اس میں بیان ہونے والے واقعات کا مدّعا ہے کہ لوگوں کے سامنے متقین کا عقیدہ اور کردار بیان کیا جائے ان کے مقابلہ میں کفار اور مشرکین کا عقیدہ کردار اور ان کا انجام ذکر کیا جائے تاکہ جرائم پیشہ لوگ اپنے برے عقیدہ اور گھناؤنے کردار سے باز آئیں۔ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی بغاوت کا راستہ اختیار کیا ان میں بڑی بڑی اقوام کو اس طرح تہس نہس کیا کہ آج دیکھنے والا کوئی ان کا نشان، آہٹ اور بھنک نہیں پا سکتا ان کی بستیاں اور قبریں زبان حال سے بول بول کر یہ پیغام دے رہی ہیں کہ اے دنیا میں رہنے والو! اقتدار، اختیار اور کسی گھمنڈ میں آکر اپنے رب کی نافرمانی نہ کرنا اگر تمھیں کسی بات پرناز ہے تو ہمارے حال کو نگاہ عبرت سے دیکھو۔ ﴿فَاعْتَبِرُوا یَا أُولِی الْأَبْصَارِ﴾ [ الحشر :2] ” اے عقل والوں نگاہ عبرت سے دیکھو۔“ (عَنْ أَبِیْٓ أُمَامَۃَ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ)، یَقُوْلُ إِذَا مَرَرْتُمْ عَلٰی أَرْضٍ قَدْ أُہْلِکَ أَہْلُہَا فَاعْدُوا السَّیْرَ) [ رواہ الطبرانی فی الکبیروہو حدیث صحیح ] ” حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا، آپ فرماتے تھے جب تم ایسی زمین سے گزرو جس کے بسنے والوں کو ہلاک کیا گیا ہو تو وہاں سے جلدی گزر جایا کرو۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (ﷺ) پر اس لیے قرآن نازل کیا تاکہ نیک لوگوں کو خوشخبری دی جائے۔ 2۔ قرآن مجید کے نازل کرنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ حق بات ٹھکرانے والوں کو ان کے برے انجام سے ڈرایا جائے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے جن اقوام کو تباہ و برباد کیا آج ان کی کوئی بھنک بھی نہیں پاتا۔