وَاتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لِّيَكُونُوا لَهُمْ عِزًّا
اور انھوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا لیے، تاکہ وہ ان کے لیے باعث عزت ہوں۔
فہم القرآن: (آیت 81 سے 82) ربط کلام : شرک کرنے کا بنیادی سبب یہ ہوتا ہے کہ انسان صرف اللہ تعالیٰ کو کارساز، خود مختار اور ایک جاننے کی بجائے دوسروں کو بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتا ہے۔ اسی وجہ سے مشرک اور کافر اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے سامنے ہاتھ جوڑتے، جھکتے، سجدے کرتے اور نذ ونیاز پیش کرتے ہیں۔ ذات کبریا کا اصل نام ” اللہ“ ہے اس کا متبادل نام الٰہ ہے۔ جو متبادل نام ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تمام بڑی بڑی صفات کا ترجمان ہے۔ اس کا ایک معنٰی حاجت روا، مشکل کشا ہے۔ (النمل :62) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار اس بات سے منع کیا ہے کہ لوگو! اللہ کے سوا نہ کسی کی عبادت کرو اور نہ کسی کو پکارو اور نہ اللہ کے ساتھ کسی کی عبادت کرو کیونکہ (تمھارا الٰہ ایک ہی ہے۔ وہ بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ البقرۃ:163) لیکن مشرک یہ بات ماننے اور سمجھنے کی بجائے ان بزرگوں کے سامنے اپنی حاجات پیش کرتے ہیں۔ جن کو یہ معلوم بھی نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ جب انھیں اٹھا کر اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا تو نہ صرف وہ مشرکوں کے شرک سے انکار کریں گے بلکہ ان کے مخالف شہادت دیتے ہوئے کہیں گے کہ بارِالٰہ نہ صرف ہم ان کے شرک کی مذمت اور انکار کرتے ہیں بلکہ ہماری درخواست ہے کہ شرک کرنے والوں کو جہنم میں جھونکا جائے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ جو علماء یہ کہہ کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں کہ من دون اللہ سے مراد پتھر، مٹی اور لکڑی کے بت ہیں انھیں معلوم ہونا چاہیے قرآن و حدیث میں کہیں نہیں آیا کہ قیامت کے دن بتوں میں جان ڈالی جائے گی۔ البتہ جن پتھر کے بتوں کی پوجا کی جاتی تھی انھیں مشرکوں کے ساتھ ہی جہنم میں پھینکا جائے گا۔ یہاں من دون اللہ کا معنٰی وہ فوت شدگان بزرگ ہیں۔ جن کو لوگوں نے داتا، دستگیر، حاجت روا اور مشکل کشا بنالیا تھا۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ کوئی عبادت کے لائق، حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔ 2۔ جن انبیاء اور اولیاء کو لوگ حاجت روا، مشکل کشا سمجھ کر پکارتے تھے وہ قیامت کے دن پکارنے والوں کا صاف انکار کریں گے۔