أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لَأُوتَيَنَّ مَالًا وَوَلَدًا
تو کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیات کا انکار کیا اور کہا مجھے ضرور ہی مال اور اولاد دی جائے گی۔
فہم القرآن: (آیت 77 سے 80) ربط کلام : سابقہ آیات میں کفر اور سرمایہ دارانہ ذہن کی عکاسی کی جا رہی تھی۔ جس میں یہ کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں ظالموں کو مہلت دیتا ہے اس کے بعد مختصر طور پر ہدایت یافتہ لوگوں کا ذکر اور ان کے بہترین انجام کا بیان فرمایا۔ اب پھر کفر و شرک اور سرمایہ دارانہ ذہن کی ترجمانی کی جا رہی ہے۔ کفر و شرک اور سرمایہ دارانہ خیال رکھنے والا شخص یہ سوچتا ہے کہ جس طرح دنیا میں اسے نوازا گیا ہے اسی طرح ہی آخرت میں اسے نوازا جائے گا۔ مکہ میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جو نہ صرف یہ ذہن رکھتے تھے بلکہ اس بات کا برملا اظہار کرتے تھے جس بنا پر نبی اکرم (ﷺ) کو فرمایا گیا ہے کیا آپ نے اس شخص کی گفتگو نہیں سنی جو یہ کہتا ہے کہ میں آخرت میں بھی مال اور اولاد میں زیادہ ہوں گا۔ اس سے پوچھیے کیا اس نے پردہ غیب سے سب کچھ دیکھ لیا ہے یا رب رحمٰن سے عہد لے رکھا ہے؟ کہ وہ اسے آخرت میں بھی نوازے گا۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ البتہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے ہم لکھ رہے ہیں اور ہم اس کے لیے عذاب کو بڑھائیں گے۔ جس مال اور اسباب کے بارے میں یہ غرور کرتا ہے اس کے ہم ہی حقیقی مالک ہیں اور وارث ہوں گے۔ قیامت کے دن اسے تنہا ہمارے پاس حاضر ہونا ہوگا۔ اس کا مال اور اولاد اسے کچھ فائدہ نہیں دے سکیں گے۔ یہ بات عیاں ہے کہ اللہ کے ہاں انسان کا ہر اچھا اور برا عمل لکھا جاتا ہے، اس کے باوجود لکھنے کا کا ذکر کیا ہے۔ جس کا مقصد ایک تنبیہ اور دھمکی ہے۔ مسائل: 1۔ کافر یہ سمجھتا ہے کہ دنیا کی طرح آخرت میں بھی نوازا جائے گا۔ 2۔ انسان جو کچھ بولتا اور کرتا ہے اسے لکھ لیا جاتا ہے۔ 3۔ قیامت کے دن مجرم کو اس کا مال اور اولاد اسے کوئی فائدہ نہیں دیں گے۔