قُلْ مَن كَانَ فِي الضَّلَالَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمَٰنُ مَدًّا ۚ حَتَّىٰ إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ إِمَّا الْعَذَابَ وَإِمَّا السَّاعَةَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضْعَفُ جُندًا
کہہ دے جو شخص گمراہی میں پڑا ہو تو لازم ہے کہ رحمان اسے ایک مدت تک مہلت دے، یہاں تک کہ جب وہ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے، یا تو عذاب اور یا قیامت کو، تو ضرور جان لیں گے کہ کون ہے جو مقام میں زیادہ برا اور لشکر کے اعتبار سے زیادہ کمزور ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : منکرین حق کو دنیوی وسائل ملنے کی وجہ۔ حق والوں کی اکثریت دنیا کی ترقی کے اعتبار سے منکرین حق سے پیچھے رہتی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ حق والے شریعت کی حدود و قیود کے پابند ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں حق اور سچ کی پرواہ نہ کرنے والے دنیا کی ترقی میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس ترقی کی وجہ سے وہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال اور معاملات پر راضی ہے جس وجہ سے اس نے ہمیں ترقی کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں نبی (ﷺ) کو فرمایا ہے کہ انھیں متنبہ فرما دیں۔ رب رحمٰن انھیں اس لیے ڈھیل دیے جا رہا ہے تاکہ قیامت یا اس سے پہلے ان سے جس عذاب کا وعدہ کیا ہے انہیں اس سے دوچار کرے۔ جب اللہ تعالیٰ کا وعدہ دنیا میں عذاب کی شکل میں یا قیامت کا دن آئے گا تو وہ ہر صورت دیکھ لیں گے کہ کون مقام اور افرادی قوت کے اعتبار سے کمزور ترین تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنے اسماء الحسنیٰ میں رحمٰن کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ اس کی شفقت اور مہربانی کا نتیجہ ہے کہ اس نے منکرین کو نہ صرف ڈھیل دے رکھی ہے بلکہ انھیں دنیاوی وسائل سے بھی مالا مال کیا ہے۔ جس کے بارے میں فرمایا ہے۔ یہ اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے اس کے سامنے تکبر کا اظہار اور ایمانداروں کے ساتھ ظلم کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ﴿فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتّٰٓی اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰھُمْ بَغْتَۃً فَاِذَا ھُمْ مُّبْلِسُوْنَ﴾ [ الانعام :44] ” پھر جب وہ اس کو بھول گئے جو انہیں نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں کے ساتھ خوش ہوگئے جو انہیں دی گئی تھیں ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا تو وہ ناامیدہوگے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُول اللَّہ (ﷺ) قَالَ إِنَّہُ لَیَأْتِی الرَّجُلُ الْعَظِیم السَّمِینُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لاَ یَزِنُ عِنْدَ اللَّہِ جَنَاحَ بَعُوضَۃٍ وَقَالَ اقْرَءُ وا ﴿فَلاَ نُقِیمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْنًا﴾) [ رواہ البخاری : باب (أُولَئِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا بآیَاتِ رَبِّہِمْ وَلِقَائِہِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُہُمْ)] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : یقیناً روز قیامت ایک بڑا اور موٹا آدمی لایا جائے گا۔ لیکن اللہ کے ہاں اس کا مچھر کے پر کے برا بر بھی وزن نہ ہوگا۔ فرمایا : یہ آیت پڑھو ( قیامت کے دن ہم ان کافروں کے لیے ترازوقائم نہیں کریں گے)۔“ ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) بازار کی ایک طرف سے داخل ہوئے آپ کے ساتھ کچھ لوگ بھی تھے آپ ایک مردہ بکری کے بچے کے پاس سے گزرے آپ نے اس کے ایک کان کو پکڑ کر پوچھا کون اسے ایک درہم کے بدلے لینا چاہے گا؟ صحابہ کرام (رض) نے کہا : ہم اسے کسی چیز کے بدلے بھی لینا نہیں چاہتے اور ہم اس کا کیا کریں گے؟ آپ نے فرمایا : کیا تم اسے پسند کرتے ہو کہ یہ بکری کا بچہ تمہارا ہوتا؟ صحابہ کرام (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو کان چھوٹے ہونے کی وجہ سے اسے قبول نہ کیا جاتا۔ اب یہ مرا ہوا ہے تو ہم کیسے اسے پسند کریں گے۔ آپ نے فرمایا : جیسے تمہارے نزدیک یہ بکری کا مردہ بچہ بڑا ہی حقیر اور بے فائدہ ہے۔ اللہ کی قسم! دنیا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر اور ذلیل ہے۔“ [ رواہ مسلم : کتاب الزھد والرقائق ] مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ ایک وقت معیّن تک ظالموں کو ڈھیل دیتا ہے۔ 2۔ اللہ کے عذاب یا قیامت کے دن مجرموں کو معلوم ہوگا کہ ان کی کیا حیثیت ہے۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن منکرین کا حال : 1۔ ہم مجرموں سے انتقام لیا کرتے ہیں۔ ( سجدہ :22) 2۔ قیامت کے دن منکرین کے لیے ہلاکت ہے۔ (الطور :11) 3۔ منکرین کے لیے جہنم کا کھولتا ہوا پانی ہے۔ (الواقعۃ:92) 4۔ جہنم میں جہنمی اس بات کا اقرار کریں گے کہ کاش عقل وفکر سے کام لیتے۔ ( الملک :10)