سورة مريم - آیت 73

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَيُّ الْفَرِيقَيْنِ خَيْرٌ مَّقَامًا وَأَحْسَنُ نَدِيًّا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جب ان پر ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ان لوگوں سے کہتے ہیں جو ایمان لائے کہ دونوں گروہوں میں سے کون مقام میں بہتر اور مجلس کے اعتبار سے زیادہ اچھا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 73 سے 74) ربط کلام : مجرم اس لیے بھی جہنم میں پھینکے جائیں گے کیونکہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دیتے اور اس پر اتراتے تھے۔ مجرموں کا جہنم میں داخل ہونے کا بنیادی سبب یہ بھی ہوگا کہ وہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دیتے ہوئے اس پر اتراتے ہیں۔ انبیاء کرام ( علیہ السلام) کے مخالفین کا یہی وطیرہ رہا ہے۔ جب ان کے سامنے ٹھوس اور واضح دلائل اور اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو انکار کرنے والے لوگ رعونت کی بنا پر ایمانداروں سے پوچھتے ہیں کہ بتاؤ کہ دنیوی مقام و مرتبہ، اور رہنے سہنے میں ہم میں سے کون بہتر ہے ؟ یہی نبی (ﷺ) کے مخالفین کا رویہ تھا ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کیا انھیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے پہلے ایسی قوموں کو تباہ و برباد کیا۔ جو شان و شوکت اور اسباب و وسائل کے اعتبار سے ان سے بہت آگے تھیں۔ ﴿وَکَأَیِّنْ مِنْ قَرْیَۃٍ ہِیَ أَشَدُّ قُوَّۃً مِنْ قَرْیَتِکَ الَّتِی أَخْرَجَتْکَ أَہْلَکْنَاہُمْ فَلَا نَاصِرَ لَہُمْ﴾ [ محمد :13] ” اور کتنی ہی بستیاں تھیں جو آپ کی اس بستی سے بڑھ کر طاقتور تھیں، جس کے رہنے والوں نے آپ کو نکال دیا ہے۔ ہم نے انہیں ہلاک کیا تو ان کا کوئی بھی مددگار نہ ہوا۔“ ﴿وَکَذَّبَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَمَا بَلَغُوْا مِعْشَارَ مَا اٰتَیْنَاہُمْ فَکَذَّبُوا رُسُلِی فَکَیْفَ کَانَ نَکِیرِ﴾ [ السبا :45] ” ان سے پہلے لوگوں نے بھی جھٹلایا اور یہ لوگ اس ترقی کو نہیں پہنچے جو ہم نے انہیں عطا کی تھی پھر انہوں میرے رسولوں کو جھٹلایا تو میرے ساتھ انکار کرنے کی وجہ سے انہیں کس انجام سے دوچار ہونا پڑا۔“ منکرین حق کی شروع سے یہ سوچ اور طریقہ رہا ہے کہ وہ ایمانداروں کے ساتھ صالح کردار کی بجائے دنیا کی ترقی اور اسباب کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔ اس منفی سوچ میں اس قدر گمراہی میں وہ آگے چلے جاتے ہیں کہ جس سے انھیں غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ دنیا میں جو مقام، شہرت اور ترقی ہمیں حاصل ہوئی ہے یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر راضی ہے تبھی تو اس نے ہمیں دنیا میں ایک مقام اور یہ سہولتیں دے رکھی ہیں۔ مسائل: 1۔ منکرین حق اور دنیا دار لوگ، ایمانداروں کے مقابلہ میں دنیا کی شہرت اور آسائش سے مقابلہ کرتے ہیں۔ 2۔ دنیا کے اسباب پر اترانے والوں کو اللہ تعالیٰ تباہ کردیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: دنیا اور اس کے وسائل کی حقیقت : 1۔ آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ (الاعلیٰ:17) 2۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ (الرعد :26) 3۔ دنیا عارضی اور آخرت پائیدار ہے۔ (المؤمن :39) 4۔ مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی زینت ہیں ہمیشہ رہنے والے نیک اعمال ہیں۔ ( الکہف :46) 5۔ یقیناً دنیا کی زندگی عارضی فائدہ ہے اور آخرت کا گھر ہی اصل رہنے کی جگہ ہے۔ (المؤمن :43) 6۔ دنیا کی زندگی تھوڑی ہے اور آخرت متقین کے لیے بہتر ہے۔ (النساء :77) 7۔ جو کچھ زمین میں ہے وہ باعث آزمائش ہے۔ (الکہف :7) 8۔ دنیاکی زندگی دھوکے کا سامان ہے۔ (آل عمران :185) 9۔ دنیا کی زندگی کی مثال آسمان سے نازل ہونے والی کی طرح ہے۔ (یونس :24) 10۔ دنیا کی زندگی صرف کھیل کود ہے۔ (العنکبوت :64) 11۔ اللہ کی آیات کے مقابلے میں پوری دنیا حقیر ہے۔ (البقرۃ:174) 12۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی کوئی حیثیت نہیں۔ (التوبۃ:38)