وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا
اور تم میں سے جو بھی ہے اس پر وارد ہونے والا ہے۔ یہ ہمیشہ سے تیرے رب کے ذمے قطعی بات ہے، جس کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔
فہم القرآن: (آیت 71 سے 72) ربط کلام : جس جہنم میں مجرموں کو پھینکا جائے گا اس پر متقین کو بھی گزرنا ہوگا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کا یہ اٹل فیصلہ ہے کہ وہ کفار، مشرکین کو جہنم میں داخل کرے گا اسی طرح ہی اس کا قطعی فیصلہ ہے کہ وہ نیک لوگوں کو بھی جہنم میں وارد کرے گا۔ پھر انہیں جہنم سے محفوظ فرمائے گا۔ جس جہنم میں مجرم گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہوں گے۔ وَارِدْ کا معنی گرنا ہے سورۃ القصص آیت 23میں وارِدْ کا معنی کسی کنویں یا گھاٹ کے قریب آنا ہے۔ حدیث میں وارِدْ سے مراد پل صراط سے گزرنا ہے۔ جس کی کیفیت رسول اکرم (ﷺ) نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے۔ (عَنْ حُذَیْفَۃَ وَاَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یَجْمَعُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی النَّاسَ فَیَقُوْمُ الْمُؤْمِنُؤْنَ حَتّٰی تُزْلَفَ لَھُمُ الْجَنَّۃُ فَیَأْتُوْنَ اٰدَمَ فَیَقُوْلُوْنَ یَا اَبَانَا اسْتَفْتِحْ لَنَا الْجَنَّۃَ فَیَقُوْلُ وَھَلْ اَخْرَجَکُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ اِلَّاخَطِیْئَۃُ اَبِیْکُمْ لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَالِکَ اِذْھَبُوْااِلَی ابْنِیْ اِبْرَاھِیْمَ خَلِیْلِ اللّٰہِ قَالَ فَیَقُوْلُ اِبْرَاھِیْمُ لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَالِکَ اِنَّمَا کُنْتُ خَلِیْلًا مِنْ وَّرَاءٍ وَّرَاءٍ اِعْمِدُوْا اِلٰی مُوْسٰی الَّذِیْ کَلَّمَہٗ اللّٰہُ تَکْلِیْمًا فَیَاْتُوْنَ مُوْسٰی فَیَقُوْلُ لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَالِکَ اِذْھَبُوْا اِلٰی عِیْسٰی کَلِمَۃِ اللّٰہِ وَرُوْحِہٖ فَیَقُوْلُ عِیْسٰی لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَالِکَ فَیَاْتُونَ مُحَمَّدًا (ﷺ) فَیَقُوْمُ فَیُؤْذَنُ لَہٗ وَتُرْسَلُ الْاَمَانَۃُ وَالرَّحِمُ فَتَقُوْمَانِ جَنْبَتَی الصِّرَاطِ یَمِیْنًا وَّشِمَالًا فَیَمُرُّ اَوَّلُکُمْ کَالْبَرْقِ قَالَ قُلْتُ بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ اَیُّ شَیْءٍ کَمَرِّ الْبَرْقِ قَالَ اَلَمْ تَرَوْااِلَی الْبَرْقِ کَیْفَ یَمُرُّ وَیَرْجِعُ فِیْ طَرْفَۃِ عَیْنٍ ثُمَّ کَمَرِّ الرِّیْحِ ثُمَّ کَمَرِّ الطَّیْرِ وَشَدِّ الرِّجَالِ تَجْرِیْ بِھِمْ اَعْمَالُھُمْ وَنَبِیُّکُمْ قَائِمٌ عَلَی الصِّرَاطِ یَقُوْلُ یَا رَبِّ سَلِّمْ سَلِّمْ حَتّٰی تَعْجِزَ اَعْمَالُ الْعِبَادِحَتّٰی یَجِیْئَ الرَّجُلُ فَلاَ یَسْتَطِیْعُ السَّیْرَ اِلَّازَحْفًا قَالَ وَفِی حَافَتَیِ الصِّرَاطِ کَلَا لِیْبُ مُعَلَّقَۃٌ مَاْمُوْرَۃٌ تَاْخُذُ مَنْ اُمِرَتْ بِہٖ فَمَخْدُوْشٌنَاجٍ وَمَکْدُوْشٌ فِی النَّارِ وَالَّذِیْ نَفْسُ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ بِیَدِہٖ اَنَّ قَعْرَ جَھَنَّمَ لَسَبْعِیْنَ خَرِیْفًا۔) [ رواہ مسلم : باب أَدْنَی أَہْلِ الْجَنَّۃِ مَنْزِلَۃً فیہَا] ” حضرت حذیفہ اور حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ لوگوں کو جمع کریں گے‘ ایماندار شخص کھڑے ہوں گے‘ جنت کو ان کے قریب کردیا جائے گا۔ وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آکر کہیں گے اے ہمارے باپ! ہمارے لیے جنت کا دروازہ کھلوا دیجیے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) عذر پیش کرتے ہوئے کہیں گے کہ تمہیں جنت سے تمہارے باپ کی غلطی نے ہی نکلوایا تھا‘ میں سفارش کرنے کا اہل نہیں ہوں۔ تم میرے بیٹے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خلیل اللہ کے پاس جاؤ۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا‘ ابراہیم (علیہ السلام) کہیں گے کہ میں اس شفاعت کا اہل نہیں ہوں‘ میں تو آج سے پہلے پہلے خلیل تھا۔ تم موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ‘ جن سے اللہ تعالیٰ بلا واسطہ ہم کلام ہوئے چنانچہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے تو وہ کہیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ تم عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ جو اللہ تعالیٰ کا کلمہ اور روح اللہ ہیں وہ کہیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں لوگ محمد (ﷺ) کے پاس آئیں گے آپ عرش کی جانب کھڑے ہوں گے‘ آپ کو شفاعت کی اجازت دی جائے گی پھر امانت اور رشتہ داری کو لایا جائے گا وہ دونوں پل صراط کی دونوں جانب دائیں اور بائیں کھڑی ہوں گی۔ پھر تم میں سے ایک طبقہ بجلی کی مانند گزر جائے گا۔ ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ (ﷺ) پر قربان ہوں! بجلی کی مانند گزرنے کی صورت کیا ہوگی ؟ آپ نے فرمایا‘ کیا تم دیکھتے نہیں کہ آسمانی بجلی کس قدر تیزی کے ساتھ آتی ہے اور پلک جھپکنے میں واپس چلی جاتی ہے کچھ لوگ پرندوں کی طرح اور کچھ آدمیوں کے دوڑنے کی طرح گزریں گے‘ ان کے اعمال ان کو چلائیں گے اور تمہارے نبی (ﷺ) پل صراط پر کھڑے ہوئے‘ یہ کہے جا رہے ہوں گے اے رب! سلامتی عطا کر‘ سلامتی عطا فرما حتیٰ کہ لوگوں کے اعمال انہیں چلانے سے عاجز آجائیں گے‘ آخر ایک شخص آئے گا‘ وہ پل صراط پر سے اپنے کو لہوں کے بل سرکتا ہوا گزرے گا اس کے بعد آپ نے فرمایا‘ پل صراط کے دونوں کناروں پر کنڈیاں لٹک رہی ہوں گی‘ جنہیں حکم ہوگا کہ وہ ان لوگوں کو کھینچ لیں جو قابل گرفت قرار ہوں گے کچھ لوگ زخمی ہو کر نجات پا جائیں گے۔ اور کچھ لوگ دوزخ میں گر جائیں گے اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ (رض) کی جان ہے بلا شبہ جہنم کی گہرائی ستر برس کی مسافت کے برابر ہے۔“ مسائل: 1۔ مجرموں کو جہنم میں گرا دیا جائے گا۔ 2۔ متقین کو جہنم سے بچا لیا جائے گا۔