وَيَقُولُ الْإِنسَانُ أَإِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا
اور انسان کہتا ہے کیا جب میں مرگیا تو کیا واقعی عنقریب مجھے زندہ کر کے نکالا جائے گا ؟
فہم القرآن: (آیت 66 سے 67) ربط کلام : انسان اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی عبادت سے قولاً یا فعلاً تبھی انکار کرتا ہے جب وہ آخرت کے عقیدہ کو بھول جاتا ہے۔ اسی بنا پر مکہ کے کافر نبی اکرم (ﷺ) سے بحث کرتے تھے کہ ہماری عقل نہیں مانتی کہ انسان جب مر کر مٹی کے ساتھ مٹی بن جاتا ہے تو پھر دوبارہ کس طرح اٹھایا جائے گا۔ اس عقیدہ کی تائید میں ایک دن ایک آدمی نے ایک بوسیدہ ہڈی ہاتھ میں ملتے ہوئے کہا کہ اس کو کس طرح دوبارہ زندہ کیا جائے گا ؟ جس کا ان الفاظ میں جواب دیا گیا۔ ” ہمارے بارے میں مثالیں بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیا کہتا ہے کہ جب ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں گی تو ان کو کون زندہ کرے گا۔ کہہ دو کہ ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار پیدا کیا تھا، اور وہ سب کچھ پیدا کرنا جانتا ہے۔ وہی ہے جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کی اور تم اس سے آگ نکالتے ہو۔ بھلا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ان کو پھر ویسے ہی پیدا کر دے کیوں نہیں اور وہ تو بڑا پیدا کرنے والا اور علم والا ہے۔ اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے۔“ (سورۃ یٰس 78، 79 تا 82) دوسرا جواب یہاں یہ دیا گیا ہے کہ کیا انسان کو یہ معلوم نہیں کہ ہم نے اسے پہلی مرتبہ پیدا کیا جبکہ اس کا وجود تک نہ تھا۔ انسان سے مراد آدم (علیہ السلام) ہیں۔ ان کی پیدائش سے پہلے انسان نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ہر انسان کی تخلیق کا یہی معاملہ ہے کہ اس کی پیدائش سے پہلے اسے اور اس کے ماں باپ کو بھی اس کی خبر نہیں تھی کہ بیٹا ہوگا یا بیٹی۔ مسائل: 1۔ انسان کی پیدائش سے پہلے اسے کوئی نہیں جانتا۔ 2۔ انسان کی پیدائش اس کے دوبارہ اٹھنے کی دلیل ہے۔