رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ ۚ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا
جو آسمانوں کا اور زمین کا اور ان دونوں کے درمیان کی چیزوں کا رب ہے، سو اس کی عبادت کر اور اس کی عبادت پر خوب صابر رہ۔ کیا تو اس کا کوئی ہم نام جانتا ہے؟
فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں موجود ہے اور جو وہ پیدا کرنے والا ہے، سب کو جانتا ہے۔ لہٰذا اے نبی (ﷺ) ! مخالفوں کی مخالفت اور دشمنوں کی دشمنی کی طرف توجہ کرنے کی بجائے میری عبادت میں مصروف رہیے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر رسول کریم (ﷺ) کی ڈھارس بندھانے کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے کہ جب بھی کفار اور مشرکین کی مخالفت اور ہٹ دھرمی کا ذکر ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی رسول کریم (ﷺ) کو نماز پڑھنے یا ذکر و اذکار کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ جس کا صاف معنٰی ہے کہ ان لوگوں سے الجھنے اور پریشان ہونے کی بجائے آپ اپنے رب کے ذکر و فکر میں مصروف ہوجایا کریں۔ تاکہ آپ پر اس کی رحمت نازل ہو جس سے آپ کا غم دور ہوجائے۔ اسی اسلوب اور ضرورت کے پیش نظر یہاں آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ اپنے رب کی عبادت کریں اور اس کی عبادت کرنے پر قائم رہیں اسی کا نام لیتے رہیں۔ وہ ایسی لازوال اور بے مثال ہستی ہے جس کا ہمسر ہونا تو درکنار کوئی اس کا ہم نام ہی نہیں۔ اسم ” اللہ“ کی خصوصیت : (اللہ تعالیٰ کے ننانوے سے زیادہ اسمائے گرامی ہیں۔ اس کا ہر نام اس کی خاص صفت کا ترجمان ہے لیکن قرآن مجید میں تین اسماء گرامی ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، وہ اسماء گرامی یہ ہیں اللہ، الٰہ، رب، ذات کبریا کا اسم اعظم ” اللہ“ ہے۔ باقی دو نام صفاتی ہیں قرآن مجید میں انہیں ناموں کے ساتھ ان تمام صفات کا ذکر پایا جاتا ہے جو اللہ کے نام کے ساتھ ذکر کئی گئی ہیں یہاں رب کا اسم استعمال ہوا ہے جس میں پہلی صفت ربوبیت ہے جس میں اللہ کا اپنے بندے کے ساتھ اپنا ئیت کا تعلق نمایاں ہوتا ہے کیونکہ رب کا معنٰی خالق اور پالنہار ہے اس کے سوا کوئی خالق اور مخلوق کی ضروریات پوری کرنے والا نہیں۔) اللہ تعالیٰ کی عبادت پر ہمیشگی اختیار کرنے کے لیے ﴿ وَاصْطَبِرْ﴾ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا معنی ہے ” مشکل اور پریشانی کے باوجود مستقل مزاجی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہنا۔“ جس کے لیے یہ تسلی دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھنے اور جاننے والا ہے۔ اس کے احاطہ علم سے کوئی چیز باہر نہیں۔ جب اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے تو اے پیغمبر (ﷺ) ! آپ کی ریاضت و عبادت، پریشانیوں اور مسائل سے آپ کا رب کس طرح غافل ہوسکتا ہے۔ کائنات کے رب نے اپنی مخلوق کی پرورش کا بندوبست ایسے مضبوط نظام کے ساتھ فرمایا ہے کہ ہر چیز کو زندگی اور اس کی بقا کے لیے جو کچھ اور جس قد رچاہیے اسے اسی حالت اور مقام پر پہنچایا جارہا ہے۔ پتھر کا کیڑا چاروں طرف بند چٹان کے اندر اپنی خوراک لے رہا ہے، مرغی کا بچہ انڈے میں پل رہا ہے، مچھلیاں دریا میں، پرندے ہوا میں، ستارے فضا میں، اور درندے صحرا میں اپنی اپنی خوراک اور ماحول میں مطمئن اور خوش وخرم دکھائی دیتے ہیں۔ ہر دانہ اپنی آغوش میں زندگی اور ہر بیج اپنے سینے میں نشوونما کا سامان لیے ہوئے ہے۔ زندگی کے لیے ہوا اور پانی اس قدر لازمی عناصر ہیں کہ ان کے بغیر زندگی لمحوں کی مہمان ہوتی ہے۔ یہ اتنے ارزاں اور وافر ہیں کہ اس کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں تک کہ پھول کی کلی کو جس ہوا اور فضا کی ضرورت ہے اسے مہیا کی جارہی ہے۔ اس لیے قرآن نے اللہ کی ہستی اور اس کے نظام ربوبیت سے بات کا آغاز کیا ہے تاکہ انسان کا وجدان پکار اٹھے کہ مجھے اس ہستی کا شکر ادا کرنا اور تابع فرمان رہنا ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ ایک زندہ ضمیر شخص جب اپنے چاروں طرف رب کی ربوبیت کے اثرات ونشانات دیکھتا ہے تو اس کے دل کا ایک ایک گوشہ پکار اٹھتا ہے۔ ﴿فَتَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ﴾ [ المؤمنون :14] ” اللہ تعالیٰ برکت والا اور بہترین پیدا کرنے والا ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ 2۔ صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں ہمیشگی ہونی چاہیے۔ 4۔ جو کچھ زمین و آسمانوں میں ہے ان میں کوئی بھی اللہ تعالیٰ کا ہمسر اور ہم نام نہیں۔ تفسیر بالقرآن: رب کا معنٰی اور اس کی صفات : 1۔ لوگو اس رب سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ (النساء :1) 2۔ تمہارا رب ہر چیز کو پیدا کرنے والاہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں تم کہاں بہک گئے ہو ؟ (المومن :62) 3۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو آپ فرما دیں تمھارا رب وسیع رحمت والا ہے۔ (الانعام :147) 4۔ یہ تمھارا رب ہے اس کے سوا دوسرا کوئی خالق نہیں۔ (الانعام :102)