أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ۩
یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا نبیوں میں سے، آدم کی اولاد سے اور ان لوگوں میں سے جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا اور ابراہیم اور اسرائیل کی اولاد سے اور ان لوگوں سے جنھیں ہم نے ہدایت دی اور ہم نے چن لیا۔ جب ان پر رحمان کی آیات پڑھی جاتی تھیں وہ سجدہ کرتے اور روتے ہوئے گر جاتے تھے۔
فہم القرآن: ربط کلام : اس خطاب کے اختتام پر انبیاء اور ان کی صالح اولاد کی خاص الخاص خوبی کا ذکر۔ چند انبیاء اور ان کی اولادوں میں ممتاز اور پسندیدہ شخصیات کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ لوگ تھے۔ جو آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں اور آدم (علیہ السلام) کے بعد ان کا نسب حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ کشتی میں نجات پانے والوں کے ساتھ ملتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نوازا اور اپنی جناب میں برگزیدہ بنایا۔ یہ ایسے باوفا اور صاحب تقویٰ لوگ تھے۔ جب ان کے سامنے ان کے رب کے ارشادات پڑھے جاتے تو وہ خوف اور شکر کے جذبات میں سجدہ ریز ہوجاتے تھے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان نوح کے وقت نسل انسانی بہت محدود تھی اور جو عرب کے علاقہ تک محدود تھی۔ جب نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں طوفان آیا تو صرف وہی لوگ بچ سکے تھے جو کشتی میں سوار تھے اور اسی سے نسل انسانی کی افزائش ہوئی تھی۔ (أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ أَخْبَرَہُمَا أَنَّ النَّاسَ قَالُوا یَا رَسُول اللَّہِ، ہَلْ نَرَی رَبَّنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ ہَلْ تُمَارُونَ فِی الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ لَیْسَ دُونَہُ سَحَابٌ قَالُوا لاَ یَا رَسُول اللَّہ قَالَ فَہَلْ تُمَارُونَ فِی الشَّمْسِ لَیْسَ دُونَہَا سَحَابٌ قَالُوا لاَقَالَ فَإِنَّکُمْ تَرَوْنَہُ کَذَلِکَ۔۔ حَتَّی إِذَا أَرَاد اللَّہُ رَحْمَۃَ مَنْ أَرَادَ مِنْ أَہْلِ النَّارِ، أَمَرَ اللَّہُ الْمَلاَئِکَۃَ أَنْ یُخْرِجُوا مَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللَّہَ، فَیُخْرِجُونَہُمْ وَیَعْرِفُونَہُمْ بآثَار السُّجُودِ، وَحَرَّمَ اللَّہُ عَلَی النَّارِ أَنْ تَأْکُلَ أَثَرَ السُّجُودِ فَیَخْرُجُونَ مِنَ النَّارِ، فَکُلُّ ابْنِ آدَمَ تَأْکُلُہُ النَّارُ إِلاَّ أَثَرَ السُّجُودِ) [ رواہ البخاری : باب فَضْلِ السُّجُودِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نے بتلایا کہ لوگوں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سوال کیا کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے آپ (ﷺ) نے فرمایا کیا تم چودھویں رات کے چاند کے بارے میں شک کرسکتے ہو جب بادل نہ ہوں انہوں نے عرض کی نہیں اے اللہ کے رسول (ﷺ) آپ نے فرمایا کیا تم سورج کو دیکھنے میں شک کرسکتے ہو جب بادل نہ ہوں انہوں نے عرض کی نہیں اے اللہ کے رسول (ﷺ) آپ نے فرمایا اسی طرح اللہ کی رویت میں کوئی شک نہیں۔۔ یہاں تک کہ جب اللہ جہنمیوں کے ساتھ رحمت کا ارادہ فرمائیں گے اللہ فرشتوں کو حکم دیں گے ہر اس بندے کو جہنم سے نکال دو جو اللہ کی عبادت کیا کرتا تھا فرشتے انہیں سجدوں کے نشانات سے پہنچانیں گے‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سجدوں کے نشانات کو جلانا آگ پر حرام قرار دیا ہے۔ انہیں فرشتے آگ سے نکالیں گے۔ آدم کے بیٹے کو آگ کھائے گی مگر سجدے والے نشانات محفوظ رہیں گے۔ یہ وہ لوگ ہونگے جو عقیدۂ توحید پر قائم تھے مگر بڑے بڑے گناہ کرتے تھے۔“ (حَدَّثَنِی مَعْدَانُ بْنُ أَبِی طَلْحَۃَ الْیَعْمَرِیُّ قَالَ لَقِیتُ ثَوْبَان َ مَوْلَی رَسُول اللَّہِ (ﷺ) فَقُلْتُ أَخْبِرْنِی بِعَمَلٍ أَعْمَلُہُ یُدْخِلُنِی اللَّہُ بِہِ الْجَنَّۃَأَوْ قَالَ قُلْتُ بِأَحَبِّ الأَعْمَالِ إِلَی اللَّہِ فَسَکَتَ ثُمَّ سَأَلْتُہُ فَسَکَتَ ثُمَّ سَأَلْتُہُ الثَّالِثَۃَ فَقَالَ سَأَلْتُ عَنْ ذَلِکَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) فَقَالَ عَلَیْکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُودِ لِلَّہِ فَإِنَّکَ لاَ تَسْجُدُ لِلَّہِ سَجْدَۃً إِلاَّ رَفَعَکَ اللَّہُ بِہَا دَرَجَۃً وَحَطَّ عَنْکَ بِہَا خَطِیئَۃً قَالَ مَعْدَانُ ثُمَّ لَقِیتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فَسَأَلْتُہُ فَقَالَ لِی مِثْلَ مَا قَالَ لِی ثَوْبَانُ) [ رواہ مسلم : باب فَضْلِ السُّجُودِ وَالْحَثِّ عَلَیْہِ] ” حضرت معدان بن طلحہ (رض) کہتے ہیں میں نبی (ﷺ) کے غلام ثوبان (رض) سے ملا اور عرض کی کہ مجھے ایسا عمل بتلائیے جو اللہ کو بہت پسند ہو۔ جس سے مجھے اللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرمادے وہ خاموش ہوگئے۔ میں نے پھر سوال کیا تب بھی انہوں نے خاموشی اختیار فرمائی۔ تیسری دفعہ میرے عرض کرنے پر فرمایا تجھے کثرت کے ساتھ اللہ کے حضور سجدے کرنے چاہییں۔ جب تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے سجدے کرے گا‘ اللہ تعالیٰ تیرے درجات کو بلند اور تیرے گناہوں کو معاف فرمائے گا۔ جناب معدان (رض) کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے ابودرداء (رض) سے ملاقات کی اور ان سے یہی سوال عرض کیا۔ اور انہوں نے بھی مجھے وہی جواب دیا جو حضرت ثوبان (رض) نے دیاتھا۔“ (حَدَّثَنِی رَبِیعَۃُ بْنُ کَعْبٍ الأَسْلَمِیُّ قَالَ کُنْتُ أَبِیتُ مَعَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) فَأَتَیْتُہُ بِوَضُوئِہِ وَحَاجَتِہِ فَقَالَ لِی سَلْ فَقُلْتُ أَسْأَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِی الْجَنَّۃِ قَالَ أَوَغَیْرَ ذَلِکَ قُلْتُ ہُوَ ذَاکَ قَالَ فَأَعِنِّی عَلَی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُودِ) [ رواہ مسلم : باب فَضْلِ السُّجُودِ وَالْحَثِّ عَلَیْہِ ] ” حضرت ربیعہ بن کعب (رض) بیان کرتے ہیں میں رات کے وقت رسول اللہ (ﷺ) کے لیے وضو کا پانی لے کر حاضر ہوا کرتا تھا۔ ایک دن ارشاد ہوا ربیعہ کچھ مانگنا چاہوتو مانگ لو۔ میں نے عرض کیا کہ میں جنت میں آپ کی رفاقت کا خواہش مندہوں فرمایا کچھ اور مانگنا چاہو؟ میں نے عرض کیا پھر بھی یہی خواہش ہے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا پھر کثرت سجود سے میری معاونت کرو۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء (علیہ السلام) کی اولاد میں بھی سلسلہ نبوت جاری فرمایا۔ 2۔ صلحاء کی خوبی ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن مجید کی آیات پڑھی جائیں تو وہ اپنے رب کے حضور روتے ہوئے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: جن انبیاء (علیہ السلام) کی اولاد کو نبی بنایا گیا : 1۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے پیغمبروں میں سے فضل و کرم فرمایا یہ اولاد آدم میں سے ہیں۔ (مریم :58) 2۔ ہم نے نوح اور پیغمبر بھیجے ہم نے ان کی اولاد کو نبوت عطا کی۔ (الحدید :26) 3۔ ہم نے ابراہیم کو اسحق و یعقوب عطا کیے اور ہم نے ان کو نبوت عطا کی۔ (العنکبوت :27) 4۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بعد ان کے بیٹے حضرت یوسف کو نبی بنایا گیا۔ ( یوسف :22) 5۔ فرشتوں نے زکریا (علیہ السلام) سے کہا اللہ تجھے یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو نیکو کار اور پیغمبروں میں سے ہوں گے۔ (آل عمران :39) 6۔ حضرت داؤد کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو نبی بنایا۔ ( النمل :16)