وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مُوسَىٰ ۚ إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا
اور کتاب میں موسیٰ کا ذکر کر، یقیناً وہ خالص کیا ہوا تھا اور ایسا رسول جو نبی تھا۔
فہم القرآن: (آیت 51 سے 53) ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ذکر کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ۔ جس طرح حضرت زکریا (علیہ السلام)، حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سیرت طیبہ بیان کرنے کا حکم ہے اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی حیات طیبہ بیان کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) صاحب کتاب رسول تھے۔ جنھیں مخلص ہونے کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعائیں اس وقت قبول ہوئیں۔ جب وہ بے بس اور ظاہری اسباب سے مایوس ہوچکے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا بھی اس وقت قبول ہوئی جب وہ غریب الوطن اور سفر کی صعوبتوں میں مبتلا تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے اپنی اہلیہ کے ساتھ آٹھ یا دس سال کے عرصہ کے بعد مصر کی طرف انتہائی غم کے عالم میں واپس آرہے تھے۔ کیونکہ فرعون نے انھیں قتل کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔ جس بناء پر انھوں نے مصر چھوڑا تھا۔ واپس جب طور پہاڑ کے قریب آئے تو طور کی دائیں جانب سے ایک آواز آئی۔ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی آواز قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے کوہ طور کی دائیں جانب موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے قریب کیا اور اس سے سرگوشی کی۔ اس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی رحمت کے دامن میں جگہ دی اور اس کے بھائی کو بھی نبوت کے منصب پر فائز فرمایا۔ سفر کے دوران انھیں فرعون کی طرف جانے کا حکم ہوا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دو عذر پیش کیے تھے۔ جن میں ایک یہ تھا کہ میرے رب ! خدشہ ہے کہ فرعون مجھے قتل نہ کر دے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے بھائی ہارون کو میرا معاون بنایا جائے۔ کیونکہ وہ فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے مجھ سے زیادہ صاحب زبان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول کرتے ہوئے ان کے بھائی کو نبوت کا منصب عطا فرمایا۔ جس کا یہاں مختصر تذکرہ ہے۔ (الشعراء : 10تا14) یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ایک ایسے وصف کا ذکر کیا گیا ہے جس بناء پر وہ دوسرے انبیاء (علیہ السلام) سے منفرد اور ممتاز دکھائی دیتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سوائے موسیٰ (علیہ السلام) کے کسی پیغمبر کے ساتھ براہ راست گفتگو نہیں فرمائی۔ (النساء :164) اسی بنیاد پر انھیں ﴿مُخْلَصًا﴾کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ جس کا اکثر اہل علم نے یہی معنٰی لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے ساتھ بات کرنے میں مخصوص فرمایا تھا۔ مخلص کا معنی ہے۔ خالص دوستی کرنا، نجات پانا، محفوظ رہنا، صاف ہونا۔ مسائل: 1۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سیرت بیان کرنے کا حکم ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے ساتھ ہم کلامی کا شرف بخشا۔ 3۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کے صلہ میں ان کے بھائی ہارون کو بھی نبی بنایا گیا۔ تفسیر بالقرآن: موسیٰ (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ کا مختصر تذکرہ : 1۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ قرآن مجید میں 135مرتبہ آیا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو واضح دلائل سے نوازا۔ (النساء :153) 3۔ اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) سے ہم کلام ہوئے۔ (النساء :164) 4۔ اے موسیٰ میں نے تجھے اپنی رسالت اور کلام کے لیے چن لیا ہے۔ (الاعراف :144) 5۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو آیات اور واضح دلائل دے کر فرعون کے پاس بھیجا۔ (ھود :96) 6۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نو واضح نشانیاں دیں۔ (بنی اسرائیل :101) 7۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نور ہدایت کی طرف بلاتے تھے۔ (ابراہیم :5) 8۔ اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) سے پر دے میں بات کرتا تھا۔ ( الشورٰی :51)