ذَٰلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ
یہ ہے عیسیٰ ابن مریم۔ حق کی بات، جس میں یہ شک کرتے ہیں۔
فہم القرآن: (آیت 34 سے 35) ربط کلام : خلاصہ کلام یہ ہے کہ عیسیٰ ابن مریم علیہا السلام ایک بندہ تھے۔ خدا نہیں تھے۔ یہاں سارے خطاب کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے ذَالِکَ کا لفظ استعمال ہوا۔ جو دور اور نزدیک کے لیے اشارہ کے طور پر بولا جاتا ہے۔ اس کا مقصد اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور جن کو لوگ خدا یا خدا کا جزء ٹھہراتے ہیں اور جہاں تک کہ عیسائیوں کا کہنا ہے کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) اللہ کا بیٹا ہے۔ انھیں قرآن مجید کی بتلائی ہوئی حقیقت کو پوری طرح سمجھ لینا چاہیے۔ کہ اللہ تعالیٰ بیوی، اولاد اور کسی قسم کی حاجت اور کمزوری سے بے نیاز۔ پاک ہے اور وہ ہر قسم کی شراکت اور لوگوں کی یاوا گوئی سے مبرّا ہے اسے اولاد اور کسی سے شراکت کی کیا ضرورت ہے۔ کیونکہ اولاد یا کسی کو اپنے کام میں شریک بنانا کمزوری کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ وہ کسی کام کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے تو اسے صرف یہ کہتا ہے کہ ” ہوجا“ تو وہ اس کی منشاء کے مطابق ہوجاتا ہے۔ اس نے عیسیٰ کے متعلق ﴿ کُنْ﴾ فرمایا اور عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوگئے۔ مسائل: 1۔ عیسیٰ ( علیہ السلام) کے متعلق لوگ شکوک وشبہات میں مبتلا ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کو اولاد کی ضرورت نہیں وہ اس سے مبّرا اور پاک ہے۔