فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ۖ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا
پھر وہ اسے اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس لے آئی، انھوں نے کہا اے مریم! یقیناً تو نے تو بہت برا کام کیا ہے۔
فہم القرآن: (آیت 27 سے 29) ربط کلام : حضرت مریم علیہا السلام کا عیسیٰ ( علیہ السلام) کو گود میں اٹھا کر اپنے خاندان کے لوگوں کے پاس آنا۔ قرآن مجید یہ بتلا رہا ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام عیسیٰ (علیہ السلام) کو گود میں لیے اپنی قوم کے پاس آئیں۔ قوم نے انھیں طعنے دیے۔ یہاں قوم سے مراد ان کے خاندان کے لوگ ہیں۔ خاندان کے لوگوں نے حضرت مریم علیہا السلام کی گود میں معصوم بچہ دیکھا تو حیران رہ گئے۔ ظاہر بات ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام عام لوگوں کی بجائے پہلی مرتبہ قریبی رشتہ داروں میں آئی ہوں گی پھر خاندان کے ذریعے بات محلے اور معاشرے کے لوگوں تک پہنچی ہوگی۔ جنھوں نے حضرت مریم علیہا السلام کو ایسی ویسی باتیں کیں اور طعنے دیے۔ یہاں تک کہا کہ اے ہارون کی بہن !” نہ تیری ماں بری تھی اور نہ ہی تیرا باپ بدکار تھا تو نے یہ کیا کر دکھایا ؟“ حضرت مریم علیہا السلام جواب دے تو کیا ؟ کیونکہ بچہ گود میں ہے۔ نکاح کسی کے ساتھ ہوا نہیں تھا مریم علیہا السلام لوگوں کو کیسے مطمئن کرسکتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم علیہا السلام کے دل میں القاء کیا اور جرأت عطا فرمائی۔ انھوں نے صرف اتنی بات کہی یا اپنے منہ کی طرف انگلی کی کہ میں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی معصوم بچے کی طرف اشارہ کیا کہ میری بجائے میرا بیٹا جواب دے گا۔ نہ معلوم کہ دل ہی دل میں حضرت مریم علیہا السلام کسی طرح دعا کرتی ہوگی کہ میرے لاڈلے تیرے سوا میری کوئی صفائی پیش کرنے والا نہیں بیٹا بول تاکہ انھیں میری پاکدامنی کا یقین ہوجائے۔ حضرت مریم علیہا السلام قوم کو یہ بات کہہ ہی پائی تھی کہ ان کی قوم شور مچانے لگی یہ گود کا بچہ ہمیں کیا جواب دے گا۔ نہ معلوم لوگ کس انداز اور زبان میں طعنے دے رہے ہوں گے۔