بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ مریم کا تعارف : ربط سورۃ: الکہف کا اختتام اس بات پر ہوا کہ نبی (ﷺ) آپ لوگوں کو فرما دیں کہ میں تمہارے جیسا بشر ہوں۔ لیکن ” اللہ“ نے مجھے اپنا رسول منتخب فرمایا ہے تاکہ اس کی الوہیّت کا پرچار کروں یہی بات سورۃ مریم کے آغاز بیان ہوئی ہے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) بھی ایک بشر اور نبی تھے۔ اور اپنے رب کی توحید اور اس کی عبادت کی طرف بلانے والے تھے۔ سورۃ مریم کا نام اسی سورۃ کی آیت 16سے لیا گیا ہے یہ سورۃ ہجرت حبشہ سے پہلے مکہ میں نازل ہوئی۔ سورۃ مریم 6 رکوع اور 98 آیات پر مشتمل ہے۔ اہل مکہ نے مسلمانوں پر اس قدر مظالم ڈھائے کہ مسلمانوں کا مکہ میں رہنا ناممکن ہوگیا۔ اس صورت حال میں اللہ کے پیغمبر نے اپنے ساتھیوں کو مشورہ دیا کہ تم کچھ مدت کے لیے حبشہ کی طرف ہجرت کر جاؤ۔ کیونکہ وہاں کا بادشاہ نہایت ہی منصف مزاج اور شفیق انسان ہے۔ حالات بہتر ہوں گے تو واپس آجانا آپ (ﷺ) کے مشورہ کے مطابق پہلی مرتبہ گیارہ صحابہ اور چار صحابیات نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ کچھ دنوں کے بعد ہجرت کرنے والوں کو یہ خبر پہنچی کہ مکہ کے حالات نسبتاً بہتر ہوگئے ہیں۔ جب یہ لوگ مکہ واپس آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ حالات پہلے سے زیادہ نازک صورت اختیار کرچکے ہیں۔ ہوسکتا ہے مکہ والوں کو مہاجرین کی واپسی پر یہ یقین ہوگیا ہو کہ ان لوگوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے مظالم میں کئی گنا اضافہ کردیا۔ اس صورت حال میں نبی کریم (ﷺ) نے اپنے ساتھیوں کو دوبارہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کا مشورہ دیا اس وقت پر 83مرد اور گیارہ خواتین نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ اہل تحقیق کے نزدیک مہاجرین کے بعد نبی (ﷺ) کے ساتھ مکہ میں صرف چالیس مسلمان باقی رہ گئے۔ تاہم مکہ کے بڑے بڑے گھرانوں میں کوئی ایسا گھر نہیں تھا جس کے کسی عزیز نے ہجرت نہ کی ہو، اس وجہ سے اس ہجرت کے مکہ پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ مکہ کے سردار دل ہی دل میں اس کرب کو محسوس کرنے لگے۔ یہاں تک کہ عمر بن خطاب کی ایک قریبی رشتہ دار لیلہ (رض) بنت حشمہ ہجرت کی تیاری کر رہی تھیں کہ اس دوران عمر بن خطاب ان کے گھر آئے دیکھا کہ لیلہ بنت حشمہ ہجرت کی تیاری کر رہی ہیں پوچھا کدھر کی تیاری ہے ؟ بہن نے رقت آمیز لہجہ میں جواب دیا بھائی جب تم نے ہمارا جینا حرام کردیا ہے تو ہم نے یہاں رہ کر کیا کرنا ہے۔ عمر بن خطاب اپنی عزیزہ کی بات سن کر خاموش ہوگئے مگر ان کے چہرے سے نمایاں طور پر دکھائی دے رہا تھا کہ وہ اندر سے ہل چکے ہیں۔ اس اضطراب کے باوجود مکہ والوں کے رویّے میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ جس بنا پر انہوں نے عبداللہ بن ابی ربیعہ ابوجہل کے سوتیلے بھائی اور عمر بن عاص پر مشتمل ایک وفد تیار کیا اور انہیں قیمتی تحائف دئے تاکہ حبشہ کے حکمران کی خدمت میں پیش کریں اور اس سے مسلمانوں کی واپسی کا مطالبہ کریں۔ مکی وفد حبشہ کے حکمران کی خدمت میں پہنچ کر پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ مہاجرین کو ان کے حوالے کیا جائے۔ کیونکہ یہ اپنے دین سے منحرف ہوچکے ہیں۔ مکہ والوں کا مؤقف سن کر نجاشی نے مہاجرین کو بلاکر پوچھا کہ اس مسئلہ میں تمہارا مؤقف کیا ہے؟ مہاجرین نے کہا کہ اے بادشاہ ! اللہ نے ہم ہی سے ایک شخص کو اپنا رسول منتخب فرمایا ہے جس نے ہمیں سچے دین کی دعوت دی اور ہم اس پر ایمان لے آئے جس وجہ سے یہ لوگ ہم پر ظلم ڈھارہے ہیں۔ یہ بات سن کر نجاشی نے اہل مکہ کا مؤقف مسترد کردیا اور اپنے اہل کاروں کو حکم دیا کہ ہمارے ملک میں مہاجرین مہمان ہیں انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچنا چاہیے۔ مکہ کا وفد مایوس ہو کر اپنی قیام گاہ میں واپس لوٹا، اور ساری رات پیچ وتاب کھاتے رہے۔ بالآخر انہوں نے اگلے دن نجاشی سے ملاقات کی اور اسے کہا کہ یہ لوگ مریم (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی توہین کرتے ہیں، اس پر نجاشی نے مسلمانوں کی طرف دوبارہ قاصد بھیجا کہ وہ حاضر ہوجائیں۔ مسلمان نجاشی کے پاس تشریف لے گئے تو اس نے حضرت مریم اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں مسلمانوں سے استفسار کیا کہ تمہارا ان ہستیوں کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ مسلمانوں نے باہم مشورہ کر کے حضرت جعفر (رض) بن ابی طالب کو اپنا نمائندہ مقرر کیا۔ اور ان سے کہا کہ ہمیں ہر حال میں سچ بات کہنا ہے۔ حضرت جعفر (رض) طیار نے اپنے ساتھیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے سورۃ مریم کی ان آیات کی تلاوت کی جس میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ حضرت مریم کے ہاں کس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے گہوارے میں اپنے بارے میں کیا گفتگو فرمائی۔ نجاشی نے ان آیات کی تلاوت سنی تو اس نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کر کہا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ سو فیصد ٹھیک ہے ان کی شان میں ایک تنکا کے برابر بھی کمی، بیشی نہیں کی گئی۔ اس طرح مسلمان سرخرو ہوئے اور مکہ کا وفد ناکام اور نامراد ٹھہرا۔ اس سورۃ مبارکہ میں حضرت مریم اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خطاب کے بارے میں تفصیلات دی گئی ہیں، جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے والد کے سامنے توحید کے واضح دلائل اور اس کا کھلے الفاظ میں ابلاغ کرتے ہیں۔ مگر باپ کے ادب میں فرق نہیں آنے دیتے۔ جس میں یہ بتلایا گیا ہے توحید کی سچائی اور غیرت اپنی جگہ لیکن اہل توحید کو ادب کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مختصر تذکرہ ہے ان کے بیان کے بعد اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر اور ان کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ وہ وعدے کے سچے رسول اور نبی تھے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا وعدہ کے بارے میں سچا ہونے کی صفت شائد اس لیے ذکر کی گئی ہے کہ انہوں نے بارہ تیرا سال کی عمر اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) سے عرض کی تھی کہ والد محترم آپ نے خواب میں مجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھا ہے تو مجھے ذبح کردیجیے آپ مجھے حوصلہ کرنے والا پائیں گے یعنی مجھے اس عہد پر پکا پائیں گے۔ حضرت اسماعیل نے انتہائی چھوٹی عمر میں باپ سے کیے ہوئے وعدے کو کمال درجے میں پورا کیا۔ جس وجہ سے ان کی اس صفت کا بالخصوص ذکر ہوا ہے۔ اس کے بعد برے لوگوں کا انجام اور متقین کے انعام کا بیان ہوا ہے۔ سورۃ کا اختتام اس بات پر ہوا کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد ٹھہرانااتنا بڑا جرم ہے کہ قریب ہے آسمان پھٹ جائے، زمین شک ہوجائے، اور پہاڑ گر پڑیں۔ ان لوگوں کی حماقت کی انتہا ہے کہ یہ نہیں سوچتے اللہ کے ہاں اولاد کس طرح ہو سکتی ہے۔ اس کی تو کوئی بیوی نہیں وہ ہر قسم کی حاجت سے مبّرا ہے۔ اولاد کی ضرورت اسے ہوتی ہے جسے اپنا نسب جاری رکھنے کی خواہش یا کسی قسم کی معاونت کی ضرورت ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر ضرورت سے بے نیاز ہے کیونکہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز اس کی ملکیت اور اس کے تابع فرمان ہے۔