أُولَٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا
یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، تو ان کے اعمال ضائع ہوگئے، سو ہم قیامت کے دن ان کے لیے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔
فہم القرآن: (آیت 105 سے 106) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ مشرکین کے ساتھ کفار کا انجام ذکر کیا جاتا ہے۔ اس آیت میں بظاہر کفار کا تذکرہ اور ان کی سزا کا بیان ہے لیکن اس کی ابتداء ﴿ اُوْلٰٓئِکَ﴾ کے لفظ سے کی گئی ہے۔ جس کا معنیٰ ” وہ“ یا ” یہی لوگ“ گویا کہ کفار کے ساتھ مشرکین کا ایک ایسا گروہ بھی ہے جو اپنے رب کی آیات کا انکار کرنے کے ساتھ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔ ان کے اعمال تو اس طرح ضائع ہوں گے کہ ان کے لیے قیامت کے دن ترازو ہی نہیں رکھا جائے گا۔ یہ سزا اس لیے ہوگی کہ انھوں نے کفر کیا اور اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے رسولوں کے ساتھ مذاق کیا تھا۔ حساب و کتاب کے حوالے سے تین قسم کے لوگ : قرآن مجید سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ قیامت کے دن حساب و کتاب کے حوالے سے لوگوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ ان میں ایک خوش نصیب جماعت ایسی ہوگی جنھیں بغیر حساب کے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ دوسرے وہ لوگ ہوں گے جن کے لیے ترازو ہی نہیں رکھا جائے گا انہیں یوں ہی جہنم داخل کردیا جائے گا۔ تیسری قسم کے لوگوں سے ان کے اعمال کے مطابق ہلکا یا بھاری حساب لیا جائے گا۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ لَیْسَ اَحَدٌ یُّحَا سَبُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِلَّاھَلَکَ قُلْتُ اَوَلَیْسَ یَقُوْلُ اللّٰہُ فَسَوْفَ یُّحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا فَقَالَ اِنَّمَا ذٰلِکَ الْعَرْضُ وَلٰکِنْ مَّنْ نُوْقِشَ فِیْ الْحِسَابِ یَھْلِکُ) [ رواہ البخاری : باب مَنْ سَمِعَ شَیْئًا فَرَاجَعَ حَتَّی یَعْرِفَہُ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی گرامی (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے دن جس سے حساب لے لیا گیا وہ ہلاک ہوا میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! کیا اللہ تعالیٰ کا ارشاد نہیں ” عنقریب اس کا آسان حساب ہوگا“ آپ (ﷺ) نے فرمایا یہ تو معمولی پیشی ہے جس شخص سے باز پرس ہوئی وہ ہلاک ہوگیا۔“ ( عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِنِّی لَاَعْلَمُ اٰخِرَ اَھْلِ الْجَنَّۃِ دُخُوْلاَ نِ اَلجَنَّۃَ وَاٰخِرَ اَھْلِ النَّارِ خُرُوْجًا مِّنْھَا رَجُلٌ یُؤْتٰی بِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُقَالُ اَعْرِضُوْ عَلَیْہِ صِغَارَ ذُنُوْبِہٖ وَارْفَعُوْاعَنْہٗ کِبَارَھَا فَتُعْرَضُ عَلَیْہِ صِغَارُ ذُنُوْبِہٖ فَیُقَالُ عَمِلْتَ یَوْمَ کَذَا وَکَذَا‘ کَذَ ا وَکَذَا وَعَمِلْتَ یَوْمَ کَذَا وکَذَا، کَذَا وَکَذَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّنْکِرَ وَھُوَمُشْفِقٌ مِّنْ کِبَارِ ذُنُوْبِہٖ اَنْ تُعْرَضَ عَلَیْہِ فَیُقَالُ لَہٗ فَاِنَّ لَکَ مَکَانَ کُلِّ سَیِّئَۃٍحَسَنَۃً فَیَقُوْلُ رَبِّ قَدْ عَمِلْتُ اَشْیَاءَ لَا اَرٰھَا ھٰھُنَا وَلَقَدْ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) ضَحِکَ حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہٗ۔) [ رواہ مسلم : باب أَدْنَی أَہْلِ الْجَنَّۃِ مَنْزِلَۃً فیہَا] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا : بلا شبہ میں جانتا ہوں کہ اہل جنت میں سے سب سے آخر میں جنت میں کون داخل ہوگا؟ اور اہل جہنم میں سے سب سے آخر میں جہنم میں سے کون نکالا جائے گا؟ وہ ایسا شخص ہوگا‘ جسے قیامت کے دن پیش کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اس کے سامنے اس کے صغیرہ گناہ پیش کرو اور اس کے کبیرہ گناہوں کو چھپائے رکھوچنانچہ اس کے سامنے صغیرہ گناہ پیش کئے جائیں گے اور اسے کہا جائیگا کہ تو نے فلاں دن‘ فلاں کام کیا؟ اور فلاں دن فلاں عمل کیا ؟ وہ اقرار کرے گا‘ اس میں انکار کرنے کی جرأت نہ ہوگی البتہ وہ اپنے کبیرہ گناہوں سے خائف ہوگا کہ کہیں وہ اس کے سامنے نہ لائے جائیں تب اس سے کہا جائے گا‘ بیشک تیرے لیے ہر برائی کے بدلہ میں ایک نیکی ہے وہ عرض کرے گا‘ اے میرے پروردگار! میں نے بہت سے اور بھی گناہ کیے تھے جن کو میں یہاں نہیں دیکھ رہا۔ ابوذر (رض) کہتے ہیں : اللہ کی قسم! میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو دیکھا کہ یہ بیان کرتے ہوئے اتنا ہنسے یہاں تک کہ آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں۔“ تفسیر بالقرآن: حساب و کتاب کے حوالے سے تین قسم کے لوگ : 1۔ یقیناً صبر کرنے والوں کو بغیر حساب کے اجر عطا کیا جائے گا۔ (الزمر :10) 2۔ مذکر و مؤنث میں سے جو بھی نیک اعمال کرے گا اسے جنت میں داخل کیا جائے گا اور اسے بغیر حساب کے رزق عطا ہوگا۔ (المومن :40) 3۔ جس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوگیا وہ کامیاب ہوا۔ (المومنون :102) 4۔ وہ لوگ جو اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کے منکر ہیں ہم ان کے لیے ترازو قائم نہیں کریں گے۔ (الکہف :105) 5۔ جس کا نیکیوں والا پلڑا ہلکا ہوا یہ وہ لوگ ہوں گے جنھوں نے اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کیا۔ (الاعراف :9)