وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ ۖ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا
اور اس دن ہم ان کے بعض کو چھوڑیں گے کہ بعض میں ریلا مارتے ہوں گے اور صور میں پھونکا جائے گا تو ہم ان کو جمع کریں گے، پوری طرح جمع کرنا۔
فہم القرآن: ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ مفسرین نے یاجوج ماجوج کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے یافث کی اولاد ہیں۔ ان کے بارے میں اختلاف ہے کہ ماضی اور موجودہ زمانے میں اس کا کون سی قوم کے ساتھ تعلق بنتا ہے اور یہ قوم کس ملک اور علاقے میں پائی جاتی تھی بہرحال اللہ“ کا حکم نافذ ہوگا تو نہ صرف سدِّ ذوالقرنین ٹوٹ جائی گی بلکہ پوری دنیا الٹ پلٹ ہوجائے گی، اس دن تمام لوگوں کو محشر کے میدان میں جمع کرلیا جائے گا۔ یاجوج ماجوج سے مراد ایشیا کے شمالی مشرقی علاقے کی وہ قومیں ہیں جو قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر غارت گرانہ حملے کرتی رہی ہیں اور جن کے سیلاب وقتاً فوقتاً اٹھ کر ایشیاء اور یورپ دونوں طرف رخ کرتے رہے ہیں۔ بائیبل کی کتاب پیدائش (باب10) میں ان کو حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے یافث کی نسل میں شمار کیا گیا ہے اور یہی بیان مسلمان مؤرخین کا بھی ہے حزتی ایل کے صیحفے ( باب 38، 39) میں ان کا علاقہ روس اور توبل ( موجودہ تو بالسک) اور مسک ( موجودہ ماسکو) بتایا گیا ہے۔ اسرائیلی مؤرخ یوسیفوس ان سے مراد سیتھیئن قوم لیتا ہے جس کا علاقہ بحرِاسود کے شمال اور مشرق میں واقع تھا۔ جیروم کے بیان کے مطابق ماجوج کا کیشیا کے شمال میں بحر خزر کے قریب آباد تھے۔ یاجوج ماجوج کے بارے میں مفسرین نے بہت ہی رطب یا بس جمع کیا اور لکھنے والوں نے یہاں تک لکھا ہے کہ یاجوج ماجوج قد کے لحاظ سے فٹ ڈیڑھ فٹ لمبے اور ان کے کان اتنے بڑے بڑے ہیں کہ ایک نیچے اور دوسرا کان اوپر لے کر سوتے ہیں ایک مادہ کم ازکم سو بچے جنم دیتی ہے۔ حدیث کی بعض کتب میں یہ روایات بھی ملتی ہیں کہ وہ سارا دن اس دیوار کو چاٹتے رہتے ہیں۔ جب مغرب کا وقت ہوتا تو تھک ہار کر کہتے ہیں کہ کل ہم اس دیوار کو چاٹ چاٹ کر ختم کردیں اور اس حصار سے باہر نکل آئیں گے یہ بھی ایک روایت میں درج ہے کہ قرب قیامت جب باہر نکلیں گے تو آسمان کی طرف تیر چلائیں گے جو خون آلود ہو کر نیچے آئیں گے۔ جن کو دیکھ کر یاجوج ماجوج کہیں گے کہ ہم نے مسلمانوں کے رب کو قتل کردیا ہے وہ اتنی تعداد میں ہوں گے کہ ان کا پہلا قافلہ بڑے بڑے دریاؤں کا پانی پی جائے گا۔ بعد کے قافلے دریاؤں اور چشموں کی مٹی بھی چاٹ جائیں وغیرہ وغیرہ۔ یاجوج ماجوج کی اصلیّت اور ان کے بارے میں روایات کی حقیقت : (عَنْ زَیْنَبَ ابْنَۃِ جَحْشٍ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) دَخَلَ عَلَیْہَا یَوْمًا فَزِعًا یَقُولُ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ، وَیْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ، فُتِحَ الْیَوْمَ مِنْ رَدْمِ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ ہَذِہِ وَحَلَّقَ بِإِصْبَعَیْہِ الإِبْہَامِ وَالَّتِی تَلِیہَاقَالَتْ زَیْنَبُ ابْنَۃُ جَحْشٍ فَقُلْتُ یَا رَسُول اللَّہِ أَفَنَہْلِکُ وَفِینَا الصَّالِحُونَ قَالَ نَعَمْ إِذَا کَثُرَ الْخَبَثُ) [ رواہ البخاری : باب یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ ] حضرت زینب بنت جحش بیان کرتی ہیں کہ ایک دن رسول محترم (ﷺ) گھبراہٹ کے عالم میں ان کے ہاں تشریف لائے اور فرمانے لگے۔” اللہ“ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں عربوں کے لیے ایک بڑا ہلاکت خیز فتنہ بالکل قریب آ پہنچاہے۔ یا جوج وماجوج کی دیوار میں اس قدر سوراخ ہوگیا ہے۔ آپ (ﷺ) نے وضاحت کے لیے اپنے انگوٹھے اور ساتھ والی انگلی سے حلقہ بنایا۔ آپ کی زوجہ محترمہ حضرت زینب (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے پوچھا‘ اے اللہ کے رسول ا! کیا ہم ہلاک کردیے جائیں گے‘ جبکہ ہم میں نیک لوگ موجود ہوں گے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا ہاں ! جب خباثتیں زیادہ ہوجائیں گی۔ (عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ أَسِیدٍ الْغِفَارِیِّ ہُرَیْرَۃَ قَالَ اطَّلَعَ النَّبِیُّ (ﷺ) عَلَیْنَا وَنَحْنُ نَتَذَاکَرُ فَقَالَ مَا تَذَاکَرُونَ قَالُوا نَذْکُرُ السَّاعَۃَقَالَ إِنَّہَا لَنْ تَقُومَ حَتَّی تَرَوْنَ قَبْلَہَا عَشْرَ آیَاتٍ فَذَکَرَ الدُّخَانَ وَالدَّجَّالَ وَالدَّابَّۃَ وَطُلُوع الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا وَنُزُول عیسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَیَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَثَلاَثَۃَ خُسُوفٍ خَسْفٌ بالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بِجَزِیرَۃِ الْعَرَبِ وَآخِرُ ذَلِکَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْیَمَنِ تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَی مَحْشَرِہِمْ)[ رواہ مسلم : باب فِی الآیَاتِ الَّتِی تَکُونُ قَبْلَ السَّاعَۃِ] ” حضرت حذیفہ بن اسید غفاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم (ﷺ) ہمارے پاس تشریف لاۓ اور ہم آپس میں قیامت کا ذکر کر رہے تھے آپ نے استفسار فرمایا کہ کس چیز کا ذکر کرر ہے ہو۔ ہم نے عرض کیا ہم قیامت کا ذکر کر رہے ہیں‘ آپ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی‘ جب تک تم اس کی دس نشایناں نہ دیکھ لو پھر آپ نے یہ نشانیاں ذکر فرمائیں : دھواں‘ دجال‘ دابۃ الارض‘ سورج کا مغرب کی جانب سے طلوع ہونا‘ حضرت عیسیٰ ابن مریم کا نزول، یا جوج وماجوج کا خروج اور لوگوں کا تین دفعہ دھنسائے جانا ان میں سے ایک بار دھنسنا مشرق میں‘ ایک مغرب میں اور ایک جزیرۃ العرب میں ہوگا۔ ان کے آخر میں یمن سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو میدان محشر کی طرف دھکیلے گی۔ ایک اور روایت میں ہے آگ عدن کے آخری کنارے سے نکلے گی جو لوگوں کو میدان حشر کی طرف دھکیل کرلے جائے گی تیسری روایت میں دسویں علامت کے طور پر آندھی کا ذکر ہے جو لوگوں کو سمندر میں گرا دے گی۔“ صور کا پھونکا جانا : ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا میں کیسے نعمتوں سے لذّت اٹھاؤں؟ جبکہ سینگ والے نے سینگ منہ میں ڈالا ہوا ہے اور اجازت کا منتظر ہے کب اس کو پھونکنے کا حکم ملے تو وہ پھونک مار دے۔ نبی محترم (ﷺ) کے صحابہ (رض) پر یہ بات گراں گزری نبی معظم (ﷺ) نے ان سے فرمایا تم کہو ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہتر کار ساز ہے اور ہم اپنے اللہ پر ہی توکل کرتے ہیں۔“ [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیا مۃ، باب ما جاء فی صفۃ الصور]