يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
وہ تجھ سے حرمت والے مہینے کے متعلق اس میں لڑنے کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے اس میں لڑنا بہت بڑا ہے اور اللہ کے راستے سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام سے (روکنا) اور اس کے رہنے والوں کو اس سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ بڑا ہے اور فتنہ قتل سے زیادہ بڑا ہے۔ اور وہ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے، یہاں تک کہ تمھیں تمھارے دین سے پھیر دیں، اگر کرسکیں، اور تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے، پھر اس حال میں مرے کہ وہ کافر ہو تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوگئے اور یہی لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : سوال و جواب کا سلسلہ جاری ہے۔ جس میں قتال فی سبیل اللہ کے بارے میں یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ حرمت کے مہینوں میں قتال کرنے میں ابتدا نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ مسلمانوں پر جنگ مسلط کردی جائے تو پھر حرمت والے مہینوں میں لڑائی کرنے کی مکمل طور پر اجازت ہے۔ سورۃ التوبۃ کی آیت 36میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق فرمائی اسی وقت سے سال کے بارہ مہینے مقرر کیے اور ان میں چار مہینوں کو حرمت والے قرار دیا جن کے نام حدیث میں ذی قعدہ‘ ذوالحجہ‘ محرم اور رجب ہیں۔ اسی وقت سے لے کر لوگوں میں ان کا احترام پایا جاتا ہے۔ اہل عرب اپنی خود غرضی کی بنا پر ان مہینوں کی جگہ دوسرے مہینے شمار کرکے حرمت کے مہینوں میں لوٹ کھسوٹ اور جنگ وجدال کرلیا کرتے تھے لیکن بنیادی طور پر ان مہینوں کے احترام کے قائل تھے۔ ہوایہ کہ اہل مکہ کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے رسول کریم (ﷺ) نے عبداللہ بن جحش (رض) کی سر کردگی میں آٹھ آدمیوں کا ایک دستہ نخلہ کے مقام پر بھیجا۔ جو طائف اور مکہ کے درمیان ایک علاقہ ہے۔ یونٹ کے سربراہ کو ایک بند لفافہ دیا کہ دو دن کا سفر طے کرنے کے بعد اسے کھول کر میری ہدایات کے مطابق عمل کرنا۔ چنانچہ دو دن کے بعد حضرت عبداللہ (رض) نے تحریر دیکھی تو اس میں یہ درج تھا ” جب میری یہ تحریرپڑھوتواس کے مطابق آگے بڑھتے جاؤ یہاں تک کہ مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ میں اترو۔ وہاں قریش کے ایک قافلے کی گھات میں لگ جاؤ اور ہمارے لیے ان کی خبروں کا پتہ لگاؤ۔“ انہوں نے سمع وطاعت کی اور اپنے رفقاء کو اس کی اطلاع دیتے ہوئے فرمایا کہ میں کسی پر جبر نہیں کرتا۔ (مَنْ کَانَ لَہُ رَغْبَۃًفِیْ الشَّھَادَۃَ فَلْیَنْطَلِقْ مَعِیَ فَاِنِیْ مَاضٍ لِاَمْرِ رسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) وَمَنْ کَرِہ فَلْیَرْجِعْ فَاِنَّ رَسُوْلُ اللّٰہ (ﷺ) قَدْ نَہَا نِیْ اَنْ اُسْتُکْرَہُ مِنْکُمْ اَحَدا فَمَضٰی مَعَہُ الْقَوْمُ) [ سنن البیہقی : باب قسمۃ الغنیمۃ فی دار الحرب] ” جسے شہادت محبوب ہو وہ اٹھ کھڑا ہو اور جسے موت ناگوار ہو وہ واپس چلاجائے۔ باقی رہا میں ! تو میں بہر حال آگے جاؤں گا۔ اس پر سارے رفقاء اٹھ کھڑے ہوئے اور منزل مقصود کے لیے چل پڑے۔“ البتہ راستے میں سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان (رض) کا اونٹ غائب ہوگیا جس پر یہ دونوں بزرگ باری باری سفر کررہے تھے۔ اس لیے یہ دونوں پیچھے رہ گئے۔ حضرت عبداللہ بن جحش (رض) نے طویل مسافت طے کر کے نخلہ میں نزول فرمایا۔ وہاں سے قریش کا ایک قافلہ گزرا جو کشمش، چمڑا اور دیگرسامان تجارت لیے ہوئے تھا۔ قافلہ میں عبداللہ بن مغیرہ کے دو بیٹے عثمان اور نوفل اور ان کے ساتھ عمرو بن حضرمی اور حکیم بن کیسان مولیٰ مغیرہ تھے۔ مسلمانوں نے باہم مشورہ کیا کہ آخر کیا کریں؟ آج رجب کا آخری دن ہے اگر ہم لڑائی کرتے ہیں تو اس حرام مہینے کی بے حرمتی ہوتی ہے اور رات بھر رک جاتے ہیں تو یہ لوگ حدود حرم میں داخل ہوجائیں گے۔ اس کے بعد سب کی یہی رائے ہوئی کہ حملہ کردینا چاہیے۔ چنانچہ ایک شخص نے عمرو بن حضرمی کو تیر مارا اور اس کا کام تمام کردیا۔ باقی لوگوں نے عثمان اور حکیم کو گرفتار کرلیا البتہ نوفل بھاگ نکلا۔ اس کے بعد یہ لوگ دونوں قیدیوں اور سامان لیے ہوئے مدینہ پہنچے۔ انہوں نے مال غنیمت سے خمس بھی نکال لیا تھا اور یہ اسلامی تاریخ کا پہلا خمس، پہلا مقتول اور پہلے قیدی تھے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے ان کی اس حرکت پر باز پرس کی اور فرمایا کہ میں نے تمہیں حرام مہینے میں جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا تھا ؛ اور سامان قافلہ اور قیدیوں کے سلسلے میں کسی بھی طرح کے تصرف سے ہاتھ روک لیا۔ اس کے باوجودمکہ والوں کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو انہوں نے اس ہنگامی اور اتفاقی واقعہ کو مذہبی رنگ دے کر مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کا طوفان برپا کردیا کہ مسلمان ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کا خیال نہیں رکھتے اور ملّتِ ابراہیم (علیہ السلام) کے شعار کو پامال کرتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا کوئی مذہب نہیں۔ ان الزامات کا جواب دینے سے پہلے وضاحت فرمائی کہ یہ حرمت والے مہینے ہیں اور ان میں قتال کرنا واقعی گناہ ہے۔ لیکن یہاں کفار کو بھی ان کے اعمال کا آئینہ دکھاتے ہوئے ان کے مظالم کی ایک فہرست سامنے رکھ دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں رکاوٹ بننا، دین حق کا انکار کرنا، بیت اللہ سے صحابہ کو روکنا اور مکہ سے مسلمانوں کو نکالنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک حرمت والے مہینوں میں قتال کرنے سے کئی گنا بڑے جرائم ہیں۔ پھر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا قتل سے بدتر جرم ہے۔ اس وضاحت اور تنبیہ کے بعد مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کفار کے عزائم سے آگاہ رہوکہ اگر ان کا بس چلے تو ان کی اوّل وآخر کوشش ہوگی اور ہے کہ تمہیں تمہارے سچے دین سے پھیر دیں۔ یاد رکھو جو کوئی دین حق سے مرتد ہوگیا اور کفر کی حالت میں اسے موت آگئی تو ایسے لوگوں کے تمام اعمال دنیا وآخرت میں ضائع کردیے جائیں گے۔ دنیا میں اعمال ضائع ہونے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اپنے نظریہ اور صحیح موقف سے پھرجانے والے پر کوئی اعتماد نہیں کیا کرتا۔ دنیا میں اس کا نام ذلّت ورسوائی کا نشان بن کے رہ جاتا ہے۔ آخرت میں یہ لوگ آگ میں جھونک دیے جائیں گے۔ جس میں ان کو ہمیشہ رہنا ہوگا۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : (مَنْ بَدَّل دِیْنَہٗ فَاقْتُلُوْہُ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھادوالسیر] ” جس نے اپنے دین کو تبدیل کرلیا اسے قتل کردو۔“ مسائل : 1۔ حرمت کے مہینوں میں جنگ کرنا گناہ ہے۔ 2۔ اللہ کے راستے میں رکاوٹ بننا، دین کا انکار کرنا، بیت اللہ سے لوگوں کو منع کرنا، کمزوروں کو ہجرت پر مجبور کرنا اور دین و مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا قتل اور لڑائی سے بڑا گناہ ہے۔ 3۔ مرتد کے دنیا اور آخرت میں تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں اور وہ واجب القتل ہے۔ 4۔ ارتداد اور کفر کی حالت میں مرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ تفسیربالقرآن : مرتد کی سزا : 1۔ مرتد ہونے والے کی توبہ قبول نہ کی جائے گی۔ (آل عمران :90) 2۔ ارتداد میں مرنے والوں کو عذاب ہوگا۔ (البقرۃ :217) 3۔ مرتد ہونے والا اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ (آل عمران :144)