ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا
پھر وہ کچھ اور سامان ساتھ لے کر چلا۔
فہم القرآن: (آیت 92 سے 98) ربط کلام : ذوالقرنین کی تیسری عسکری مہم۔ مفسرین کا خیال ہے کہ مشرق و مغرب کو فتح کرنے کے بعد ذوالقرنین اپنے ملک سے ملحقہ اس زمانے کی موجود دنیا کے شمال مشرقی علاقے میں پہنچا جسے بعض مؤرخ ترکستان کے قریب کا علاقہ شمار کرتے ہیں۔ یہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے یافث کی اولاد آباد تھی۔ جہاں بحرقرز اور بحر اسود کے درمیان پہاڑی سلسلہ ہے یہاں کے لوگوں کو مؤرخ منگول قوم کے نام سے یاد کرتے ہیں یہ قریب قریب وہی علاقے ہیں جہاں چائینہ کا ملک ہے۔ کیونکہ یہاں کوہ قفقاز کے دامن میں آ ہنی دیوار موجود ہے۔ ذوالقرنین کی تعمیر کردہ دیوار کے متعلق بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے مراد مشہور دیوار چین ہے۔ حالانکہ دراصل یہ دیوار قفقاز (Caucasus) کے علاقہ داغستان میں دربند اور داریاں (Darial) کے درمیان بنائی گئی تھی۔ قفقاز اس ملک کو کہتے ہیں جو بحیرۂ اسود (Black Sea) اور بحیرۂ خَزر (Caspian Sea) کے درمیان واقع ہے۔ اس ملک میں بحیرۂ اسود سے داریال تک تو نہایت بلند پہاڑ ہیں اور ان کے درمیان اتنے تنگ درے ہیں کہ ان سے کوئی بڑی فوج نہیں گزر سکتی۔ البتہ در بند اور داریال کے درمیان جو علاقہ ہے اس میں پہاڑ بھی زیادہ بلند نہیں ہیں اور ان میں کوہستانی راستے بھی خاصے وسیع ہیں۔ قدیم زمانے میں شمال کی وحشی قومیں اسی طرف سے جنوب کی طرف غارت گرانہ حملے کرتی تھیں اور ایرانی فرمانرواؤں کو اسی طرف سے اپنی مملکت پر شمالی حملوں کا خطرہ لاحق رہتا تھا۔ انہی حملوں کو روکنے کے لیے ایک نہایت مضبوط دیوار بنائی گئی تھی جو 50میل لمبی 290فٹ بلند اور دس فٹ چوڑی تھی۔ ابھی تک تاریخی طور پر یہ تحقیق نہیں ہوسکی ہے کہ یہ دیوار ابتداً کب اور کس نے بنائی۔ مگر مسلمان مؤرخین اور جغرافیہ نویس اسی کو سدِّ ذوالقرنین قرار دیتے ہیں۔ ابن جریر طبری اور ابن کثیر نے اپنی تاریخوں میں یہ واقعہ لکھا ہے اور یاقوت نے بھی مُعْجم البلدان میں اس کا حوالہ دیا ہے کہ حضرت عمر (رض) نے آذر بائیجان کی فتح کے بعد 22ہجری میں سُرَاقہ بن عمرو کو باب الابواب ( دربند) کی مہم پر روانہ کیا اور سراقہ نے عبدالرحمن بن ربیعہ کو مقدمۃ الجیش کا افسر بنا کر آگے بھیجا۔ عبدالرحمن جب رمینیہ کے علاقے میں داخل ہوئے تو وہاں کے فرمانروا شہر براز نے جنگ کے بغیر اطاعت قبول کرلی۔ اس کے بعد انہوں نے باب الابواب کی طرف پیش قدمی کا ارادہ کیا۔ اس موقع پر شہر براز نے ان سے کہا کہ میں نے اپنے ایک آدمی کو سدِّ ذوالقرنین کا مشاہدہ اور اس علاقے کے حالات کا مطالعہ کرنے کے لیے بھیجا تھا، وہ آپ کو تفصیلات سے آگاہ کرسکتا ہے۔ چنانچہ اس نے عبدالرحمن کے سامنے اس شخص کو پیش کیا۔ (طبری، ج،3: البدایۃ والنہایہ ج7: معجم البلدان، ذکر باب الابواب) اس واقعہ کے دو سو سال بعد عباسی خلیفہ واثق (227۔ 233ھ) نے سدّ ذوالقرنین کا مشاہدہ کرنے کے لیے سلام الترجمان کی قیادت میں 50آدمیوں کی ایک مہم روانہ کی جس کے حالات یاقوت نے معجم البلدان اور ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں خاصی تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں لکھتے ہیں کہ یہ وفد سامَرّہ (سُرَّمَنْ رَأیٰ) سے تفلیس وہاں سے السر یر وہاں سے اللان ہوتا ہوا فیلان شاہ کے علاقے میں پہنچا، پھر خَزَر کے ملک میں داخل ہوا۔ اس کے بعد دربند پہنچ کر اس نے سدّ کا مشاہدہ کیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تیسری صدی ہجری میں بھی مسلمان عام طور پر قفقاز کی اس دیوار ہی کو سدّ ذوالقرنین سمجھتے تھے۔ یاقوت نے معجم البلدان میں متعدد دوسرے مقامات پر بھی اسی امر کی تصریح کی ہے۔ (ہِیَ بِلَاد التُرَکِ خَلَفَ بَابِ الْاَبْوَابِ الْمَعْرُوْفِ بالدَّْرْ بَنْدَ قَرِیْبٌ مِنْ سَدِّ ذِی الْقَرْنَیْنِ) یہ ترکوں کا علاقہ ہے جو سد ذوالقرنین کے قریب باب الابواب کے پیچھے واقع ہے جسے دربند بھی کہتے ہیں۔“ اسی سلسلہ میں خلیفہ المقتدر باللہ کے سفیر، احمد بن فضلان کی ایک رپورٹ نقل کرتا ہے جن میں مملکت خزر کی تفصیلی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ خزر ایک مملکت کا نام ہے جس کا صدر مقام اتل ہے۔ دریائے اِتِل اس شہر کے درمیان سے گزرتا ہے اور یہ دریا روس اور بلغار سے آکر بحر خزر میں گرتا ہے۔ باب الابواب کے زیر عنوان لکھتا ہے کہ اس کو الباب اور دربند بھی کہتے ہیں، یہ بحر خزر کے کنارے واقع ہے۔ بلاد کفر سے بلاد مسلمین کی طرف آنے والوں کے لیے یہ راستہ انتہائی دشوار گزار ہے۔ ایک زمانہ میں یہ نوشیروان کی مملکت میں شامل تھا اور شاہان ایران اس سرحد کی حفاظت کو غایت درجہ اہمیت دیتے تھے۔ (تفہیم القرآن : جلد،3) یہاں ذوالقرنین نے ایسی قوم کو پایا۔ جن کی زبان سے وہ واقف نہ تھا۔ ظاہر ہے اس قوم کے نمائندوں نے کسی ترجمان یا اشاروں کی زبان سے اپنی صورت حال بادشاہ سلامت کے سامنے پیش کی ہوگی یہاں یا جوج ماجوج قوم رہتی ہے۔ جو اس علاقے پر شب و خون مارتے اور ہر قسم کا دنگا فساد کرتے ہیں انھوں نے ہمارا جینا حرام کر رکھا ہے۔ ان سے ہماری حفاظت کا کوئی بندوبست فرمائیں۔ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی رکاوٹ کھڑی کریں۔ ہم اس کے لیے آپ کی خدمت میں ٹیکس بھی پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کی گفتگو سے ثابت ہوتا ہے کہ ذوالقرنین نے ان پر کسی قسم کی زیادتی نہیں کی تھی اور نہ ہی ان کے مال میں تصرف کیا جس وجہ سے وہ از خود مال کی پیشکش کرتے ہیں۔ رحم دل بادشاہ نے کہا کہ مجھے آپ کے مال کی ضرورت نہیں۔” اللہ“ کا مجھ پر کرم ہے اس نے مجھے سب کچھ دے رکھا ہے۔ آپ صرف افرادی قوت مہیا کریں یعنی لیبر دیں میں تمھارے اور ان کے درمیان ایک بند بنائے دیتا ہوں۔ تم لوہے کی چادریں اٹھا اٹھا کر لاؤ۔ میں دونوں پہاڑوں کے درمیان آ ہنی دیوارکھڑی کردیتا ہوں۔ چنانچہ اس نے پہاڑوں کے دونوں جانب لوہے کی موٹی موٹی دیواریں کھڑی کرکے ان کو آگ سے تپا یا جب وہ ایک خاص ڈگری تک گرم ہوگئیں تو حکم دیا ان کے درمیان پگھلا ہوا تانبا بھر دیا جائے۔ اس طرح دونوں پہاڑوں کے درمیانی حصے کو لوہے اور تانبے کے کنکریٹ سے بند کردیا۔ اس موقعہ پر بادشادہ نے اختتامی کلمات کہتے ہوئے فرمایا کہ یاجوج ماجوج نہ اس پر چڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس میں نقب لگا سکتے ہیں ظاہر ہے اتنے بڑے منصوبہ کی تکمیل پر لوگوں نے ذوالقرنین کی تعریف کی ہوگی۔ نیک دل بادشاہ اس پر اترانے کی بجائے کہتا ہے کہ یہ میرے رب کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ البتہ جب میرے رب کا وعدہ آن پہنچے گا تو وہ اسے پیوندِخاک کر دے گا اور اس کا وعدہ حق اور سچ ہے۔ وعدہ سے مراد قیامت یا دیوار کی مدّتِ عمر ہے۔ یہاں پھر ذوالقرنین کے حسن کردار اور عقیدہ کی پختگی کا پتہ چلتا ہے کہ عظیم فاتح اور بلاشرکت غیرے دنیا کا حکمران ہونے کے باوجود رعایا کے ساتھ کس قدر مہربان اور قیامت پر کتنا پختہ عقیدہ رکھنے والا شخص تھا جس کی کلام حمید میں تعریف کی گئی ہے۔