كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
تم پر لڑنا لکھ دیا گیا ہے، حالانکہ وہ تمھیں ناپسند ہے اور ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمھارے لیے بہتر ہو اور ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو اور وہ تمھارے لیے بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا اور جان قربان کرنا دونوں مشکل ترین کام ہیں۔ اس لیے انہیں ایک دوسرے کے بعد ذکر کیا ہے جہاد میں دونوں لازم وملزوم ہوتے ہیں۔ ہرمعاشرے اور قوم میں ایسے لوگ بھی ہوا کرتے ہیں جو مشکل حالات میں جذباتی ہو کر لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوجایا کرتے ہیں۔ لیکن کفار کے ساتھ باضابطہ مقابلے کے وقت آگے بڑھنے سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ میدان کارزار میں اترنا ہر کسی کے دل گردہ کی بات نہیں۔ لہٰذا لوگوں کو انگیخت دینا اور تیار کرنا پڑتا ہے۔ اس فرمان میں ایسی ہی صورت حال کی طرف اشارات پائے جارہے ہیں۔ جس سے اس الزام کی از خود نفی ہورہی ہے جو غیر مسلم مسلمانوں پر لگایا کرتے ہیں کہ مسلمان بنیادی طور پرجنگجو اور جارح قوم ہے۔ یہاں تو عیاں ہورہا ہے کہ رسول کریم (ﷺ) کے زمانے میں بھی کچھ مسلمان ابتداءً جنگ سے کتراتے تھے۔ لیکن جب مسلمانوں پر ایسے حالات ٹھونس دیے جائیں کہ جنگ کے بغیر چارہ کار نہ ہو تو پھر لڑنے مرنے کا فیصلہ کرنا مسلمانوں کا اختیار نہیں رہتا ان حالات میں آسمانی حکم ہے۔ ایسی صورت حال میں لڑائی سے جی چرانا اپنے آپ کو دشمن کے کے حوالے کرنا ہے۔ اللہ عالم الغیب جانتا ہے کہ بہتری اور خیر کس کام میں زیادہ ہے۔ کیا کوئی شخص یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ اس کام میں خیر زیادہ اور دوسرے میں بہتری کم ہے ؟ فرمایا ہرگز نہیں! خیر اور نقصان کے بارے میں اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ تمہاری خیر اللہ کے حکم ماننے میں ہے۔ لہٰذا مال بھی خرچ کرو اور جان بھی لڑاؤ۔ اس سے دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے ہر صورت اس پر عمل کرنا مسلمان پر فرض ہے۔ مسائل : 1۔ خیر وشر کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ 2۔ انسان کسی چیز کو اپنے لیے بہتر سمجھتا ہو تو ضروری نہیں وہ بہتر ہو۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر کام کی حکمت جانتا ہے انسان نہیں جانتا۔